جنگل کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے

265

ایک صاحب بڑی متانت سے اپنی ذہانت کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگے کہ مجھے دو چیزیں ورثے میں ملی ہیں ایک یادداشت اور دوسری یاد نہیں آرہی۔۔۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ہم پاکستانیوں کا بھی ہے کہ ہم کچھ ایام میں ہی گزرے واقعات و سانحات کو بھول جاتے ہیں اور اس کا احساس شدید ہوتا ہے جب ہم ٹی وی چینلوں پر ہونے والے ٹاک شوز دیکھتے یا اخبارات پڑھتے ہیں تو میڈیا بھی اسی کیفیت سے دوچار ہے۔
اگر صرف گزشتہ دس دنوں کی خبروں اور واقعات کا جائزہ لیں تو ہمیں پورے پاکستان اور خصوصاً کراچی میں بارشوں کے ہولناکیاں و تباہیاں، بجلی کا بحران، کراچی کے حقوق، ختم نبوت یا ناموس رسالت، صحابہ کی توہین، مروہ زیادتی کیس، لاہور موٹر وے کیس، عاصم باجوہ، ایف اے ٹی ایف، فوج کے خلاف بولنے پر قانون اور اب یعنی آج نواز شریف کا مسئلہ۔ یعنی روز کے حساب سے نئے سے نئے کیس میڈیا کی زینت بنتے اور غائب ہوتے دیکھتے ہیں، گزرے واقعات نہ صرف میڈیا و اخبارات سے غائب ہوجاتے ہیں بلکہ ذہنوں سے بھی محو ہوجاتے ہیں یا محو کروا دیے جاتے ہیں اور گفتگو میں صرف نیا واقعہ یا کیس رہ جاتا ہے۔
اس عمومی مزاج ہی کی وجہ سے ہمارے ہاں کسی بھی واقعہ یا سانحے پر کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا جاتا، کوئی تدارک نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے ایسے واقعات تواتر سے ہوتے چلے جارہے ہیں، حکومت وخواص سے لیکر عوام تک، اخبارات سے لیکر سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا سب کا یہی حال ہے کہ وہ کسی بھی واقعہ پر ایک دو دن رو گا کر خاموش ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ دباو برقرار نہیں رہتا اور حکومت و قانون نافذ کرنے والے اداروں کو موقع مل جاتا ہے کہ ان معاملات کو سرکاری دفاتر میں دفنا دیں۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نورا کشتی جاری ہے، ملک میں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہوتی جارہی ہے، اس وقت ملک میں انسان نما بھیڑیوں کا راج ہے، معصوم بچوں سے لیکر خواتین و مرد سب ان بھیڑیوں کے رحم کرم پر ہیں نہ جانے کب ان کی عزتیں پامال کردی جائیں یا کوئی رئیس زادہ، کوئی ایم این اے، کوئی ایم پی اے، کوئی بگڑا طاقتور نشے کی حالت میں کسی غریب پولیس والے پر اپنی قیمتی گاڑی چڑھادے، کیمروں کی آنکھ میں واقعات محفوظ ہونے کے باوجود انصاف کی دیوی آنکھ پر پٹی باندھے رہی اور مجرم عدالت سے باعزت بری کردیا گیا اور وہ وکٹری سائن بناتے ہوئے عدل و انصاف کے منہ پر طماچہ مارتا جلوس کی شکل میں عدالت سے چلا جاتا ہے۔ کس سے پوچھا جائے کہ ایسے واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں؟ کیا ہمارے فوجداری قوانین میں سقم ہے؟ یا ان قوانین پر عملدرآمد کے لیے صلاحیت نہیں، ہمارے ہاں لاقانونیت اتنی عام ہوگئی ہے کہ اب قانون پر چلنا یا قانون کی یاددہانی کروانا ایک مذاق سا بن گیا ہے۔
ابھی پچھلے دنوں یونیورسٹی روڈ پر ایک رکشہ اور موٹر سائیکل کی مخالف سمت سے آتے ہوئے باہم ٹکرا گئے دیگر لوگوں کی طرح میں بھی ان کے درمیان بیچ بچائو کرانے کھڑا ہوگیا، مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کے رانگ سائڈ سے آنے والا زیادہ چیخ چلا رہا تھا اور دوسرے کو ٹریفک کے قوانین سکھا رہا تھا جبکہ سب سے تکلیف دہ بات یہ کے اس واقع سے کچھ دور ٹریفک پولیس کا سارجنٹ مع اپنے دو چار ساتھیوں کے مختلف مال بردار گاڑیوں کے تعاقب میں لگا ہوا تھا تاکہ گھر لوٹیں تو کچھ جیبوں میں بھر کر لیکر جائیں، ان کے سامنے ان کے دائیں بائیں ٹریفک الٹا سیدھا رواں دواں تھا مگر شاید یہ ان کی ذمے داری نہ تھی۔
کہا جاتا ہے کہ مچھلی ہمیشہ اپنے منہ کی جانب سے سڑتی ہے، چنانچہ ہمارا معاشرہ بھی اوپر سے خراب ہورہا ہے، لاقانونیت اور لاپروائی اوپر ہی سے پھیل رہی ہے جس کی وجہ سے کوئی ادارہ آئین و قانون میں رہ کر اپنا کام نہیں کررہا، سیاسی بھرتیاں اور اثر رسوخ نے ان اداروں کی کارکردگی بری طرح متاثر کی ہے جس میں سر فہرست قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں، پولیس اپنا کام نہیں کررہی بلکہ اب تو یہ عام ہوچکا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جرائم کی سرپرستی اور لاقانونیت کے بڑھنے کی بڑی وجہ ہی پولیس ہے۔
تحریک انصاف کے الیکشن جیتنے کی وجوہ میں عمران خان صاحب کے چند اہم کرنے کے کام میں ایک پولیس میں اصلاحات کا نکتہ شامل تھا مگر ابھی تک اس سمت میں کوئی کام ہوتا نظر نہیں آتا، اگر عمران خان صاحب پولیس میں سیاسی بھرتیاں اور دیگر دبائو سے پولیس کو فارغ کردیں تو ممکن ہے کہ کچھ بہتری نظر آئے۔ اس کے علاوہ کراچی کی پولیس میں کراچی کے شہریوں کو بھرتی ہونا چاہیے کہ وہ اپنے شہر کے امن و امان کو بہتر بنانے میں دلچسپی لیں کیونکہ نظر یہ آتا ہے کہ اندرون سندھ یا کراچی سے باہر کے آئے ہوئے پولیس والوں کا فوکس صرف و صرف پیسہ بنانا ہوتا ہے قانون پر عمل داری نہیں۔
عوام نے بڑے کھلے دل سے تبدیلی کو ووٹ دیا تھا، اس تبدیلی سے خواص نے تو فائدہ اٹھایا مگر عوام بے چاری ابھی تک اس تبدیلی راہ تک رہی ہے جس کا وعدہ عمران خان صاحب نے کیا تھا، فی الحال تو مہنگائی، آٹا چینی کا بحران، پٹرول کا بحران، بجلی کی لوڈشیڈنگ نے عوام کو ادھ موا کررکھا ہے اور وہ سوچنے سمجھنے سے قاصر ہے، یہ بات یقینی ہے کہ جب وہ اس کیفیت سے نکلے گی تو اس تبدیلی کا حشر ضرور کردے گی۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ ملک کو چلانے کے لیے ایک باصلاحیت، نیک نام، خدا ترس اور باعمل افراد پر مشتمل ٹیم درکار ہے اور مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کے موجودہ حکومت کے ہاتھ اس بارے میں تنگ ہیں، دوسال ہونے کو آئے مگر ابھی تک کوئی قابل ذکر کام نہ کرسکی یہ حکومت اور نہ ہی امکان ہے کہ باقی ماندہ ایام میں یہ کچھ کرپائیں گے۔ اس وقت حکومت کا سارا فوکس صرف اور صرف آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف اور دیگر بیرونی دبائو کے تحت معاملات اور قانون سازی پر ہے اسی سے اس حکومت کی ترجیحات دیکھی جاسکتی ہیں۔