مجید اچکزئی کی بریت اور معاندانہ رویہ

264

ملک کے اندر پکڑ دھکڑ، قید وبند کی انتقامی سیاست نے اقدار، روایات اور شائستگی کو پامال کر رکھا ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے کُل جماعتی کانفرنس کے معاً بعد جمعیت علماء اسلام کے قائد مو لانا فضل الرحمن معتوب ٹھیرائے گئے۔ مسلم لیگ نواز کے رہنماء رانا ثناء اللہ کو بھی ہیروئن اسمگلنگ یا کاروبار کرنے کے بھونڈے الزام میں گرفتار اور پسِ زنداں رکھا گیا۔ یہاں کوئٹہ میں پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی ڈپٹی سیکرٹری عبدالمجید اچکزئی سیاسی انتقام کی زد میں ہیں۔ 20جون2017ء کو زرغون روڈ پر پیش آنے والے حادثہ میں بدستور اُلجھا ئے رکھے گئے ہیں۔ جس میں ٹریفک سارجنٹ عطاء اللہ جاں بحق ہوگئے تھے۔ مجید اچکزئی فوری حراست میں نہ لیے گئے۔ سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ مہم چلوائی گئی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج منصوبہ بندی کے تحت اسلام آباد سے نجی ٹی وی چینلز پر چلوائی گئیں۔ اس کے بعد نیم شب پولیس اور ایف سی مجید اچکزئی کی رہائش گاہ گئی، گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ تاثر ان کی روپوشی کا پھیلایا گیا۔ تب مجید اچکزئی بلوچستان اسمبلی کے رکن اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ ان کی جماعت پشتون خوا ملی عوامی پارٹی مخلوط حکومت میں شامل تھی۔ درحقیقت وہ پولیس کے اعلیٰ حکام کو اس روز ہی مطلع کر چکے تھے، کہ جب بھی انہیں تھانے طلب کرنے کی ضرورت پڑی تو وہ خود پہنچ جائیں گے۔ مگر پولیس ان کے گھر پہنچ گئی اور بتایا گیا کہ مجید اچکزئی چھاپے کے دوران حراست میں لیے گئے۔ لے جاتے ہوئے ان کی ویڈیو بنائی گئی اور سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی۔ مجید اچکزئی پر قتل، دہشت گردی اور دوسری دفعات قائم کردی گئیں۔ یوں وہ چھ ماہ جیل میں قید رہے، ما بعد ضمانت پر رہا ہوئے۔ چناں چہ 4ستمبر 2020 کو کوئٹہ کی ماڈل کریمنل کورٹ IIکے جج دوست محمد مندوخیل نے انہیں عدم ثبوت کی بنیاد پر مقدمے میں بری کردیا۔ عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد ہی سماجی رابطے کی ویب سائٹس اور قومی ذرائع ابلاغ پر شور اُٹھا۔ ظالم اور مظلوم کا بیانیہ پیش ہونے لگا۔ مرحوم سارجنٹ عطاء اللہ کے بیٹے اور خاندان کے دوسرے افراد ٹاک شوز میں بٹھائے گئے۔ منظر نامہ پہلے کی مانند اب بھی حادثہ کے بجائے دانستہ قتل کا پیش ہوا۔
معروضی حقیقت سے سب ہی آگاہ ہیں کہ یہ سڑک حادثہ تھا، نہ کہ ارادی قتل۔ لواحقین پہلے گمراہ کن طور عدم تحفظ اور جان کو درپیش خطرات کا واویلا کرتے ر ہیں۔ گویا سب سوچی سمجھی اسکیم کے تحت بلوایا جاتا تھا۔ بریت کے بعد بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی کو پتا نہیں کیا سوجھی کہ اُس نے بھی اعلان کیا کہ حکومت بریت کے خلاف عدالت سے رجوع کرے گی۔ سچ یہ ہے کہ مرحوم عطاء اللہ کے خاندان کو کسی نے دھمکی دی نہ ہی زور زبردستی والا معاملہ کیا گیا۔ بلکہ مجید اچکزئی کے خاندان کے افراد نے حادثے کے بعد مرحوم عطاء اللہ کے خاندان سے میت آبائی علاقے ڈیرہ غازی خان منتقل کرنے میں تعاون کیا، بعد میں تعزیت کے لیے گئے۔ رسم و رواج کے تحت ان سے روابط بھی رکھے گئے۔ قبائلی عمائدین جرگہ لے کر ان کے گھر گئے تھے۔ اور مسئلہ کافی حد تک حل بھی ہوگیا تھا۔ بعد ازاں نادیدہ افراد نے تصفیہ میں خلل پیدا کیا۔ حتیٰ کہ لواحقین سے بھرپور مالی تعاون بھی کیا ہے۔ چناںچہ اب بلوچستان پولیس نے بریت کا فیصلہ عدالت عالیہ بلوچستان میں چیلنج کردیا۔ جو خالصتاً انتقامی عمل ہے، جس میں مرحوم عطاء اللہ کے خاندان کو دھکیلنے کی کوشش ہورہی ہے۔ وگرنہ حادثات تو ہوتے رہتے ہیں۔ خود نیشنل ہائی ویز پولیس کے مطابق محض بلوچستان کی قومی شاہراہوں پر ٹریفک حادثات میں سالانہ چھ ہزار افراد جاں بحق ہوتے ہیں۔ تو کیا ان حادثات میں بھی لوگوں پر ارادی قتل اور دہشت گردی کے مقدمات قائم کیے جاتے ہیں؟۔ لہٰذا یہاں بھی مقدمہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے تناظر میں دیکھنا چاہیے تھا۔ اگر پولیس کہتی ہے کہ یہ واقعہ دانستہ قتل کا ہے، تو پولیس کی اپنی کارکردگی پر بھی سوال اُٹھتے ہیں۔ جس نے تفتیش میں موٹی موٹی غلطیاں کیں۔ یہاں تک ملزم کی شناخت پریڈ تک نہ کرائی گئی۔ مقدمہ پہلے نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا۔ کئی دنوں بعد جب معاملہ میڈیا پر اُٹھا تو مجید اچکزئی نامزد کرلیے گئے۔ اور پھر حد اور تجاوز کرتے ہوئے دہشت گردی کی دفعات لگائی گئیں۔ لہٰذا کوئی اپنے سیاسی انتقام میں مرحوم عطاء اللہ کے بیٹوں اور خاندان کو استعمال کرکے نفرتوں کو دوام دینے کی مزید کوشش نہ کی جائے تو بہتر ہے۔ یہاں پہلے ہی نفرتیں موجود ہیں۔ صوبے کے مقامی نوجوان کہتے ہیں کہ دوسرے صوبوں کے لوگ ملازمتوں میں ان کا حق مار رہے ہیں۔ یہاں تک کہ عدالتوں میں جعلی ڈومیسائل کے خلاف درخواستیں لگی ہوئی ہیں۔ شنید ہے کہ بلوچستان حکومت مرحوم عطاء اللہ کے بیٹے کو ملازمت اور پلاٹ دے چکی ہے۔ جس میں مجید اچکزئی کا تعاون بھی شامل ہے۔ اورمقدمے میں دہشت گردی کی دفعہ لگنے کی وجہ سے دہشت گردی کے متاثرین کی امداد کے لیے بلوچستان حکومت کی رائج پالیسی کے مطابق لواحقین کو ستر لاکھ روپے امداد دی جا چکی ہے۔ خود مجید اچکزئی کے خاندان نے مالی مدد اور تعاون سے ہنوز پہلو تہی نہ کی ہے۔ حیرت ہے کہ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس سرعام پاکستانی شہریوں کو گولیاں برسا کر قتل کرتا ہے۔ اس کی بریت کے لیے پوری ریاست متحرک ہوتی ہے۔ اور قصاص و دیت کے قانون کے نام پر رہا کرایا جاتا ہے۔ جبکہ اپنے ملک کے شہری کو سڑک حادثے کیس میں سیاسی انتقام کے بھینٹ چڑھانے کی مکروہ سعی کی جاتی ہے!۔ بہتر ہے کہ مرحوم عطا اللہ کے لواحقین مزید کسی کے بہکاوے میں نہ آئیں اور نہ مزید آلہ کاربنیں۔