کرنل ضمیر مرحوم

213

کرنل ضمیر صاحب ہمارے بہت پرانے دوست تھے وہ ہماری مسجد کے سابق چیئرمین بھی تھے یوں تو وہ فوج کے ریٹائرڈ کرنل تھے لیکن دیکھنے میں بالکل عام سے آدمی لگتے تھے کرنلوں والی کوئی پھوں پھاں نہیں تھی۔ مشرقی پاکستان میں انہوں نے بھی 1971 کی تاریخی لڑائی میں ہتھیار ڈالے تھے اور انڈیا میں دو سال تک قید کاٹنے کے بعد واپس آئے تھے۔ اکثر مزے لیکر وہ قید کے قصے ہمیں سناتے تھے ایک دفعہ کہنے لگے کہ ایک دن قید میں ان کے جونیئر میجر صاحب نے ان سے کہا کہ کرنل صاحب ان بنیوں نے ہمیں اتنی دال کھلا دی ہے کہ اگر ہماری بوٹی کاٹی جائے اور اسے تلا جائے تو وہ پکوڑا بن جائے۔ انہوں نے مسجد کی چیئرمینی کے دوران بہت سی خدمات انجام دیں جس میں اپنی جیب خاص سے مسجد میں ایک غسل میت کا کمرہ بھی بنوایا جو پورے کا پورا ماربل کا بنا ہوا تھا اور حسن اتفاق دیکھیے کہ ان کا انتقال ہوا تو ان کی میت بھی اسی غسل خانے میں غسل اور کفن سے سرفراز ہوئی۔ قید سے واپسی کے بعد بھی وہ فوج میں کافی عرصے ملازم رہے وہ ضیاء الحق کے ساتھیوں میں شامل تھے۔ جب مارشل لا لگا تو انہوں نے بھی ماشل لا ایڈمنسٹریٹر کے فرائض سر انجام دیے، اکثر مسجد کے معاملات اور محلے کے دیگر معاملات میں بھی وہ لوگوں کے ساتھ خیر کا معاملہ فرماتے تھے اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے آفس میں جب تک رہے لوگوں کے کئی کاموں میں مددگار ثابت ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنا ذاتی کاروبار شروع کیا اور اس سلسلے میں انہیں اکثر یورپ لندن امریکا اور مشرق وسطیٰ جانا آ نا رہتا تھا جب بھی وہاں سے واپس آتے تو اپنے دورے کی تفصیلات سے مجھے آگاہ کرتے ان کے رشتہ دار لندن میں قیام پزیر تھے جہاں وہ اکثر جاتے اور قیام بھی فرماتے تھے۔
کراچی میں ان کا گھر مسجد کے قریب ہی ہمارے محلے میں واقع تھا جہاں وہ تنہا رہتے تھے جب کہ ان کی اہلیہ کچھ سال پہلے وفات پا چکی تھیں۔ ستم ظریفی تھی کہ اہلیہ اپنے انتقال سے قبل دس سال سے زیادہ ذہنی مریضہ رہیں۔ وہ واحد کرنل ہوںگے جو اپنی بیگم سے پٹتے رہتے تھے اس کے باوجود انہوں نے بیگم کا ساتھ نہیں چھوڑا اور نہ ہی ان کی خدمت میں کوئی کسر چھوڑی۔ اکثر عید بقر عید کے موقع پر وہ بہترین سا کیک لے کر محلے کے چند مخصوص دوستوں جن میں ہم بھی شامل تھے ان کے گھروں پر جاتے، بچوں سے خوشی سے ملتے سب کو عید مبارک دیتے اور وہ کیک سب کے حوالے کرتے۔ کیک دیکھ کر ہمارے بچے شور مچادیتے کہ کرنل انکل آئے ہیں اور کیک بھی لائے ہیں۔ ان کی اور بچوں کی محبت دیدنی تھی۔ انہوں نے انتقال سے قبل ہی وصیت کر دی تھی کہ ان کا گھر مسجد کو دے دیا جائے اور مسجد والوں کو تاکید کر دی تھی کہ ان کے گھر میں بچیوں کا مدرسہ قائم کر دیا جائے مگر افسوس کے مسجد والے ان کی وصیت کا صحیح طرح سے احترام نہیں کر سکے اور ان کے مکان کو بیچ کر اس کی رقم مسجد اور مدرسے میں لگا دی جو پہلے ہی سے قائم تھا مزید لاپروائی یہ کی کہ ان کا مکان مارکیٹ قیمت سے کم پر بیج دیا خیر یہ معاملہ اب اس وقت کی مسجد کمیٹی اور اللہ کے درمیان ہے کرنل صاحب اس سے بری الذمہ ہیں۔
وہ اپنے کاروباری دورے پر لندن میں قیام پزیر تھے کہ دل کے معاملات بگڑنا شروع ہوگئے وہاں ڈاکٹروں نے معائنہ کرکے ان کو بائی پاس کا مشورہ دیا کرنل صاحب نے حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ کم ازکم پاکستانی پچیس سے تیس لاکھ کا خرچہ ہے انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ پاکستان جا کر آپریشن کروا لوں یہاں زیادہ سے زیادہ پانچ لاکھ میں آپریشن ہوجاتا اس خیال سے انہوں نے مزید تاخیر کی اور لندن سے کراچی آ گئے کراچی آ نے کے بعد چند دن ان کے ٹیسٹ وغیرہ ہوئے اور ان کے آپریشن کی تاریخ مقرر ہو گئی انتقال سے دو دن پہلے وہ ڈیفنس (آخری دنوں میں وہ اپنے بھائیوں کے پاس ڈیفنس منتقل ہوگئے تھے) سے عزیز آباد ملنے کے لیے آئے اور مسجد کے دوستوں اور نمازیوں سے ملاقات کی اسی دوران ہمارے پر زور اصرار پر وہ ہمارے گھر بھی تشریف لائے اور ہم دونوں ایک ہی صوفے پر بیٹھ کر منہ در منہ گپ شپ کرنے لگے۔ یہ ہماری ان سے آخری ملاقات تھی۔ ہمیں کرنل صاحب کے یوں عارضہ قلب پر حیرت بھی ہوئی۔ جس کی بڑی معقول وجہ بھی تھی یوں تو کرنل ہونے کی وجہ سے ساری زندگی محنت و مشقت اور جسمانی تربیت میں گزاری تھی۔ مگر اہم بات یہ تھی کہ ریٹائر منٹ کے بعد ہم نے زندگی میں بہت کم لوگ دیکھے ہوں گے جو کرنل صاحب کی طرح پیدل چلتے ہوں۔ اس سلسلے میں ان کا معمول تھا کہ تہجد میں اٹھتے۔ اور تہجد سے فارغ ہوکر پیدل چلنا شروع کرتے جو کم و بیش ایک گھنٹہ ہوتا یہاں تک کہ فجر کی اذان ہو جاتی۔ فجر پڑھ کر وہ ہم مسجد کے دوستوں کے ساتھ دوبارہ واک شروع کرتے جو ایک گھنٹے پر محیط ہوتی۔ اس دوران دنیا بھر کے مسائل اور مباحث زیر بحث آتے اور یہ چلتی پھرتی محفل گرماگرم بحث کے بعد انتہائی پر امن طریقے سے منتشر ہوجاتی اور ہم سب اپنے اپنے روزمرہ کے معمولات میں مشغول ہوجاتے۔ شام کو عصر کی نماز سے لیکر مغرب تک پھر یہ سلسلہ جاری رہتا۔ ہم سب تو تھک کر ڈھیر ہوجاتے مگر کرنل صاحب مغرب کے بعد سے عشاء تک اس سلسلے کو جاری رکھتے۔ کبھی کبھی موڈ میں ہوتے تو عشاء کے بعد بھی واک جاری رکھتے۔ ہم حیران ہیں کہ اتنی واک کرنے والا شخص کیسے دل کا مریض ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد ہمارا یقین پختہ ہوگیا کہ۔۔
موت کا ایک دن معین ہے، نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
لہٰذا ہم نے ڈاکٹروں کا مشورہ ایک طرف رکھا اور واک کو خیر باد کہا اور اپنی مرضی سے جینا شروع کیا نہ واک۔۔ نہ ورزش۔ نہ فکر نہ فاقہ نتیجہ ظاہر ہے وزن دن دونی رات چوگنی ترقی کرتے کرتے 100 کلو سے آگے نکل چکا ہے۔ نہ صرف وزن آگے نکل چکا ہے بلکہ پیٹ بھی۔ اب آپ سے کیا پردہ جس طرح منہ سے نکلی بات اور کمان سے نکلا تیر واپس نہیں آتا۔ اسی طرح بیلٹ سے باہر پیٹ بھی دوبارہ واپس نہیں جاتا۔ لہٰذا دوستوں سے گلے ملنے کے بجائے توند ملانے پر اکتفا کرتے ہیں۔ آپریشن سے ایک دن پہلے وہ عصر کی نماز میں وضو کر رہے تھے کہ اللہ کی طرف سے بلاوا آ گیا اور وہ ہمیں روتا چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کے جنازے میں نمازیوں کی کافی بڑی تعداد تھی جو ان کی بخشش کی نوید تھی۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی کرنل صاحب کا ساتھ اپنی جنتوں میں نصیب فرمائے۔ آمین ثمہ آمین