فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے کہا ہے کہ ‘اسلام اس وقت دنیا میں ایک بحران سے دوچار ہے’ تاہم جمہوری فرانس میں ‘روشن خیال اسلام’ کی بہت گنجائش موجود ہے۔
فرانسیسی صدر نےکہا کہ ان کے ملک میں کہیں بھی کسی کو یہ اجازت نہیں دی جائےگی کہ وہ مذہب کا سہارا لے کر ایک ایسا علحیدہ متوازی معاشرہ بنانے کی کوشش کرے جو فرانس کی اقدار سے متصادم ہو۔
مزید پڑھئیے: چارلی ہیبڈو کا دوبارہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے کا اعلان
فرانسیسی صدر کے مطابق مسلم اکثریتی محلوں میں مذہبی آزادی کی آڑ میں انتہاپسندی، نفرت اور تشدد کا پرچار کرنے والے فرانس کے لیے خطرہ ہیں۔
فرانسیسی صدر نےاعلان کیا کہ فرانس کے گلی محلوں میں انتہاپسندی روکنے کے لیے حکومت ایک نیا قانون لا رہی ہے، اس قانون کے ذریعے مقامی سطح پر مذہبی اور سماجی تنظیموں کے مالی معاملات کی بہتر نگرانی کی جائے گی، نام نہاد انتہا پسندی پھیلانے والے نجی مدارس کے خلاف کارروائی ہوگی جبکہ مذہب کے نام پر بچیوں اور خواتین پر قدغنیں لگانے کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔
واضح رہے کہ یورپی ممالک میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی فرانس رہتی ہے جبکہ اسلام یہاں کا دوسرا بڑا مذہب ہے، جہاں لگ بھگ 60 لاکھ مسلمان بستے ہیں۔
دوسری جانب فرانسیسی حکومت کے مجوزہ قانون پر وہاں مسلم برادری رہنماؤں میں خدشات ہیں کہ اس سے ‘اسلاموفوبیا’ اور ان کے خلاف تعصب کو مزید ہوا ملے گی۔
Macron no longer hiding his feelings about Islam. No longer radical Islam, now it’s just Islam that is the problem https://t.co/ljRK3LuNMM
— Bruno Maçães (@MacaesBruno) October 2, 2020
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی اطلاعات کے مطابق فرانسیسی صدر نئے اقدامات کےتحت فرانس میں پبلک سیکٹر میں کام کرنے والی خواتین پر حجاب پہننے کی پابندی کو اب نجی شعبے میں بھی لاگو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔
یاد رہےکہ حال ہی میں فرانسیسی صدر کے جمہوری فرانس کے بدنامِ زمانہ میگزین چارلی ہیبڈو نے ایک بار پھر پیغمبر اسلام ﷺ کے گستاخانہ خاکےدوبارہ شائع کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد مسلم ممالک اور دنیا بھر میں فرانسیسی حکومت سمیت میگرین کی انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ فرانس میں اسلاموفوبیا کے باعث مسلمانوں کی مقدس کتاب ‘قرآن مجید’ کو نظر آتش کرنے واقعات بھی رونما ہوچکےہیں۔