اسلام مخالف بیان پر اردوان کی فرانسیسی صدر کو للکار

693

انقرہ: ترک صدر رجب طیب اردوان نے فرانس میں اسلام مخالف بیان اور حجاب پر پابندی لگانے کی سختی سے مذمت کرتے ہوئےکہا کہ فرانسیسی صدر میکرون اسلام پر زبان درازی کرکے اپنی حد سے تجازوز کررہے ہیں۔

ترک صدر نے دارالحکومت انقرہ میں ایک تقریب کے دوران یورپی ممالک اور سیاستدانوں آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک کی حکومتیں نسل پرستی اور اسلام دشمنی کی سرپرستی ملوث ہیں اور یہ عمل ان کے اپنے معاشرے کیلئے کسی صورت ٹھیک نہیں۔

  اردوان نے کہا کہ یورپی ممالک کے سیاستدان اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلیے مسلم دشمنی کو استعمال کررہے ہیں اور ہم فرانسیسی صدر سے ذمہ دار شخصیت کی حیثیت سے کام کرنے کی امید رکھتے ہیں۔

 خیال رہے کہ گزشتہ دنوں فرانسیسی صدر میکرون نے ملک میں خواتین پر حجاب پہننے کی پابندی کونجی شعبے میں بھی لاگو کرنے کا اعلان کیا تھا۔

فرانسیسی صدر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ “وہ فرانس میں اسلام کو بیرونی اثرات سے آزاد کریں گے،دنیا بھر میں اسلام بحران کا شکار ہے، ہم اسکولز پر سخت نگرانی اور مساجد کو ہونے والی غیر ملکی فنڈنگ کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کریں گے”۔

‘اسلام اس وقت دنیا میں ایک بحران سے دوچار ہے’

فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے کہا ہے کہ ‘اسلام اس وقت دنیا میں ایک بحران سے دوچار ہے’ تاہم جمہوری فرانس میں ‘روشن خیال اسلام’ کی بہت گنجائش موجود ہے۔

فرانسیسی صدر نےکہا کہ ان کے ملک میں کہیں بھی کسی کو یہ اجازت نہیں دی جائےگی کہ وہ مذہب کا سہارا لے کر ایک ایسا علحیدہ متوازی معاشرہ بنانے کی کوشش کرے جو فرانس کی اقدار سے متصادم ہو۔

مزید پڑھئیے: چارلی ہیبڈو کا دوبارہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے کا اعلان

فرانسیسی صدر کے مطابق مسلم اکثریتی محلوں میں مذہبی آزادی کی آڑ میں انتہاپسندی، نفرت اور تشدد کا پرچار کرنے والے فرانس کے لیے خطرہ ہیں۔

The Deep Historical Roots of France's Obsession with Muslim Women's Dress |  by Mohammed Iqbal Degia | Extra Newsfeed

فرانسیسی صدر نےاعلان کیا کہ فرانس کے گلی محلوں میں انتہاپسندی روکنے کے لیے حکومت ایک نیا قانون لا رہی ہے، اس قانون کے ذریعے مقامی سطح پر مذہبی اور سماجی تنظیموں کے مالی معاملات کی بہتر نگرانی کی جائے گی، نام نہاد انتہا پسندی پھیلانے والے نجی مدارس کے خلاف کارروائی ہوگی جبکہ مذہب کے نام پر بچیوں اور خواتین پر قدغنیں لگانے کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔

واضح رہے کہ یورپی ممالک میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی فرانس رہتی ہے جبکہ اسلام یہاں کا دوسرا بڑا مذہب ہے، جہاں لگ بھگ 60 لاکھ مسلمان بستے ہیں۔

دوسری جانب فرانسیسی حکومت کے مجوزہ قانون پر وہاں مسلم برادری رہنماؤں میں خدشات ہیں کہ اس سے ‘اسلاموفوبیا’ اور ان کے خلاف تعصب کو مزید ہوا ملے گی۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی اطلاعات کے مطابق فرانسیسی صدر نئے اقدامات کےتحت فرانس میں پبلک سیکٹر میں کام کرنے والی خواتین پر حجاب پہننے کی پابندی کو اب نجی شعبے میں بھی لاگو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔

یاد رہےکہ حال ہی میں فرانسیسی صدر کے جمہوری فرانس کے بدنامِ زمانہ میگزین چارلی ہیبڈو نے ایک بار پھر پیغمبر اسلام ﷺ کے گستاخانہ خاکےدوبارہ شائع کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد مسلم ممالک اور دنیا بھر میں فرانسیسی حکومت سمیت میگرین کی انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا جبکہ فرانس میں اسلاموفوبیا کے باعث مسلمانوں کی مقدس کتاب ‘قرآن مجید’ کو نظر آتش کرنے واقعات بھی رونما ہوچکےہیں۔