پھانسی پھانسی اور سر عام پھانسی۔۔۔

176

وطنِ عزیز پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات ہر گزرتے روز کے ساتھ بڑھ رہے ہیں 9جنوری 2018ء کو قصور میں زینب نامی معصوم بچی کے ساتھ زیادتی کی گئی اور قتل کرکے لاش قصور کے نواح میں کچرے کے ڈھیر میں پھینک دی گئی۔ اس پر پورے پاکستان میں شدید غم و غصے کے باعث زبردست احتجاج شروع ہو گیا تھا۔ جس کے نام کی مناسبت سے وفاقی حکومت نے خصوصی قانون کو ’’زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری بل‘‘ کا نام دیا۔
کراچی میں 5 سالہ بچی مروہ کی سوختہ لاش برآمد ہوئی جس کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کا انکشاف ہوا، اور آئے دن ملک کے مختلف حصوں سے تواتر سے معصوم بچیوں اور بچوں سے جنسی زیادتی کی خبریں سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ قصور سے لے کر شہرِ قائد تک ملک کا کوئی بھی شہر ہمارے بچوں کے لیے محفوظ نہیں۔ مروہ نامی بچی کے ساتھ واقعہ رواں ہفتے پیش آیا جس کے بعد یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ جو انسانیت کے دشمن ایسے جرائم میں ملوث ہیں انہیں صرف پھانسی کی سزا دینا کافی نہیں ہے بلکہ انہیں نشان عبرت بنایا جائے۔ کچھ حکومتی ارکان اسمبلی نے ان واقعات پر اپنی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان جرائم پر سزائے موت یا پھانسی کی سزا بھی تجویز کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے موقف کی تائید کرڈالی۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ قتل کی سزا قصاص ہے اور بل میں بچوں کے قاتل کو صرف قید تک محدود کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بل میں دفعہ 302 اور دفعہ 201 کو شامل کیا جائے۔ دیگر سینیٹر نے کہا کہ سزائے موت کی دفعہ شامل کیوں نہیں کی گئی۔ انہوں نے بل میں دفعہ 302 اے کے تحت قصاص کو شامل کرنے پر زور دیا اور کہا کہ قصاص کا خاتمہ عالمی سازش ہے۔ خود وزیر اعظم نے جب ایک انٹرویو میں کہا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ ان بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کرنے والوں کو عوام الناس کے سامنے پھانسی دوں تو مجھے ان کے اس اعلان پر خوشی ہوئی کے چلو اب ملک میں کم از کم ان جرائم پر تو پھانسی کی سزا دی جاسکے گی مگر، دوسرے ہی لمحے وزیر اعظم صاحب نے اپنی بات سے یو ٹرن لیا اور اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ میں چاہ کر بھی سزائے موت یا پھانسی کو قانون کا حصہ نہیں بنوا سکتا اور نہ ہی اس پر عمل کروا سکتا ہوں کہ مجھ پر مغرب کا دبائو ہے۔
ہمارے ہاں جب کسی سانحے یا کسی جرم پر کوئی عوامی احتجاج شدت اختیار کرجاتا ہے تو عوام کو لولی پاپ کی شکل میں خصوصی قوانین کے ساتھ خصوصی عدالتیں یا ادارے بنا دیے جاتے ہیں ، کیا پہلے سے موجود قوانین میں ہمارے بچوں کو تحفظ حاصل نہیں تھا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی قوانین موجود تھے اور ان میں بچوں سمیت سب کو تحفظ مہا کرنے اور جرم کے شکار افراد کو انصاف فراہم کرنے کی ضمانت دی گئی ہے لیکن ان قوانین پر وہ ادارے عملدرآمد نہیں کرتے، جو قوانین کے مطابق عملدرآمد کرنے کے پابند ہیں۔ ملک بھر میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران بچوں سے زیادتی کے 17862 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، ایک غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق ہر روز پاکستان میں 12 بچوں کو جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس میں دیہی علاقے سرِ فہرست ہیں جہاں ایسے واقعات رپورٹ بھی نہیں کیے جاتے۔ 2019ء کے دوران پاکستان میں کمسن بچے بچوں سے جنسی زیادتی اور تشدد کے 4000 واقعات رپورٹ ہوئے۔
زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری بل کی منظوری کی ضرورت بھی اس لیے پیش آئی کہ زیادہ تر تھانوں میں ایف آئی آر درج کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا جاتا یا لوگوں کو ٹال دیا جاتا تھا، جس طرح دیگر جرائم کی ایف آئی آرز کے اندراج میں لیا جاتا ہے۔ حالانکہ ایف آئی آر کا اندراج نہ کرنا بھی قانون کی خلاف ورزی ہے ، پولیس کو اس امر کا پابند بنایا گیا ہے کہ کسی بچے کے والد یا کوئی وارث بچے کے اغوا یا لاپتا ہونے کی تھانے میں اطلاع دے تو دو گھنٹے کے اندر اندر ایف آئی آر کا اندراج لازمی ہوگا۔ اگر کوئی پولیس اہلکار ایسا نہیں کرے گا تو اسے بل کے تحت دو سال تک قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالتوں کو بھی پابند کیا گیا ہے کہ وہ بچوں کے خلاف جرائم کے مقدمات کا تین ماہ میں فیصلہ کریں۔
سینیٹ و اسمبلی میں موجود تمام ارکان کو ہر قسم کے دبائو اور لالچ سے نکل کر عوام اور ووٹرز کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنا قومی اور دینی فریضہ انجام دینا ہوگا اور ان جرائم پر ایسی سخت قانون سازی کرنی ہوگی اور سزائے موت یا پھانسی دینی ہوگی جس سے اس قسم کے جرائم کا سد باب کیا جائے، یاد رکھیں چند سال کی قید کی سزا ناکافی ہے، ہمارا جیل کا نظام ایسا نہیں جہاں قیدیوں کی اصلاح ہوتی ہو بلکہ دوران قید وہ انتہائی ماہر اور بے خوف مجرم بن جاتے ہیں اور سزائے قید مکمل ہونے کے بعد وہ معاشرے میں صرف برائی اور تباہی پھیلانے کا کام کرتے ہیں جس میں پولیس سے تعلقات ان کے کام آتے ہیں۔ اس سلسلے میں قوم کو بھی بیدار مغزی کا ثبوت دینا ہوگا اور صرف حکومتی اقدامات پر انحصار کے بجائے ہمیں ایک موثر حکمتِ عملی تشکیل دینی ہوگی جس سے ہمارے بچے جنسی زیادتی کا شکار اور قتل ہونے سے محفوظ رہیں۔ والدین، بھائی بہنوں کے علاوہ کسی کو بھی بچوں تک رسائی نہیں ہونی چاہیے۔ بچوں کے دوست احباب، کلاس فیلوز کے بارے میں مکمل معلومات رکھیں اور وقتاً فوقتاً ان سے اسکول جاکر ملاقات بھی کیا کریں اور ٹیچرز سے بچوں کے روئیوں کے بارے میں بات چیت کرنا بھی بڑی اہم ہے۔