کسی ادارے شخصیت کا نام لینے پر پی ڈی ایم میں کوئی مسئلہ نہیں، مولانا فضل الرحمن

187

اسلام آباد: پاکستان متحدہ موومنٹ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ سیاستدانوں کے نام لئے جاسکتے تو پھر ادارے کے کسی اور فرد کا نام بھی لیا جاسکتا ہے۔

اپوزیشن اتحاد کے سربراہی اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پی ڈی ایم کا اجلاس ہوا جس میں بعض جماعتوں کے سربراہان اور بعض جماعتوں کے سربراہان کے نمائندے شریک ہوئے، میاں نواز شریف اور آصف زرداری ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شریک ہوئے۔ اجلاس میں ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال اور آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کا سب سے سنگین اور حساس مسئلہ معاشی بحران ہے، جس نے عام شہری کی زندگی کو اجیرن کردیا ہے اس کا سکون اور عزت نفس چھین لیا گیا ہے اور ایک محترم شہری کی حیثیت سے وہ زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہا اس تمام تر صورتحال میں پاکستان متحدہ موومنٹ نے تحریک کو آگے لے جانے اور ملک کے مختلف حصوں میںجلسہ عام منعقد کرنے کے سابقہ شیڈول پر بھی بات کی اور آئندہ کے شیڈول  طے کرنے کے طریقہ کار پر بھی بات کی ہے۔

مولان فضل الرحمن نے کہا کہ پی ڈی ایم کے نزدیک اس کا اصل ہدف پاکستان میں حقیقی آئینی اورجمہوری نظام کی بحالی ہے اس حوالے سے ایک میثاق طے کرنے پر اتفاق ہوا ہے، 13 نومبر کو اسٹیرنگ کمیٹی کا اجلاس ہوگا جس میں تمام پارٹیاں ایک متفقہ  میثاق کیلئے اپنی اپنی تجاویز لائیں گی اور تمام پارٹیوں کی تجاویز کے اشتراک کے ساتھ ایک متفقہ میثاق طے کرلیا جائے گا۔ 14 نومبر کو اسلام آباد ہی میں سربراہی اجلاس ہوگا جو اسٹیرنگ کمیٹی کی سفارشات کو حتمی شکل دے گا۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس میں 19اکتوبر کو کراچی میں مقامی ہوٹل کے اندر محترمہ مریم نواز ان کے شوہر کیپٹان(ر) صفدر کے ساتھ  جو واقعہ پیش آیا اور اس کی پاداش میں جس طرح وہاں کی پولیس کی اعلیٰ کمان کی توہین و تذلیل  کی گئی اس کی ایک بار پھر شدید مذمت کی گئی ہے، اور پھر اس کے بعد آرمی چیف کی سطح پر مداخلت ہوئی کیونکہ صوبے کے تمام پولیس افسران نے چھٹی پر جانے کا فیصلہ کرلیا تھا اور ان کو کہا گیا تھا کہ ہم ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائیں گے جو 10روز کے اندر سفارشات پیش کرے گی لیکن آج 3 ہفتے ہورہے ہیں اس کی کسی قسم کی رپورٹ سامنے نہیں آرہی۔

انھوں نے کہا کہ مسلم لیگ کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر وہ اس روش پر جائے گی تو پھر انکے لوگ بھی قتل کیے جائیں گے، یہ ریاست کی سطح پر اعتراف ہے کہ پاکستان میں اصل دہشت گرد کون ہے، سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ان کے معزز اراکین کو نشانہ بنانے والی اصل قوتیں کون ہیں اس سے ہمیں پتہ چل گیا ہے اگر کچھ ہوا تو ہمیں تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، ہمیں اس میں جرم کرنے والی شخصیات اور اداروں کا پتہ چل گیا ہے یہی آئندہ کی ذمہ دار ہوں گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کے خلاف آئے روز مقدمات دائر کیے جارہے ہیں لیکن عاصم باجوہ اور جہانگیر ترین کی کرپشن کے بارے میں اٹھنے والے سوالات پر خاموشی موجودہ حکومت کی طرف سے ان کو تحفظ دینے کے مترادف ہے ۔

انھوں نے کہا کہ ہم اداروں کا احترام کرتے ہیں لیکن سیاستدانوں میں انفرادی نام لیا جاسکتا ہے، وزیراعظم کا نام لیا جاسکتا ہے صدر کا نام لیا جاسکتا ہے تو ادارے کے کسی اور فرد کا نام بھی لیا جاسکتا ہے، نام لینا جرم کی بات نہیں بہرحال ہم اس حوالے سے حقیقت پسندی کی طرف جانا چاہتے ہیں، بعض لوگ لحاظ رکھتے ہیں بعض شدت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں اصل میں کوئی جھگڑا نہیں ہوا کرتا۔