انفلوئینزا اور کوروناوائرس، بظاہر ایک جیسا مرض

131

ڈاکٹروں کے مطابق فلو ایک بے ضرر وائرل انفیکشن سمجھا جاتا ہے، لیکن اب اس سے لوگوں میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔

سر گنگا رام اسپتال کے سینئر کنسلٹنٹ ، ڈاکٹر اتول گوگیا کے مطابق فلو کی اموات کی شرح 0.1٪ سے بھی کم ہے لیکن لوگ اس لیے خوفزدہ ہیں کیونکہ اس کے علامات کوویڈ 19 سے ملتی جلتی ہیں جس کی شرح اموات دس گنا زیادہ ہے جب کہ صحت بحال ہونے میں بھی کافی وقت لگتا ہے

کوروناوائرس ، فلو ، یا موسمی انفلوئنزا سانس کی تکلیف کا سبب بنتے ہیں اور ایک دوسرے سے رابطے ، ہوا میں موجود قطروں اور فومائٹس کے ذریعہ پھیلتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ، “اگرچہ کوویڈ 19 سے ہونے والی اموات کی وجہ کو مکمل طور پر سمجھنے میں کچھ وقت لگے گا لیکن ہمارے پاس اب تک جو اعداد و شمار موجود ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اموات کی شرح 3٪ اور 4٪ کے درمیان ہے جبکہ انفیکشن سے ہونے والی اموات کی شرح اس سے کم ہے۔

موسمی انفلوئنزا میں شرح اموات 0.1 فیصد سے بھی کم ہوتی ہے۔ تاہم انفلوئنزا انفیکشن کا خطرہ سب سے زیادہ بچوں ، حاملہ خواتین ، بوڑھوں ، طویل المیعاد کسی مرض میں مبتلا رہنے والے افراد میں ہوتا ہے۔

صفدرجنگ اسپتال کے کمیونٹی شعبہ میڈیسن کے سربراہ ڈاکٹر جوگل کشور نے کہا ہے کہ فلو کے لئے بچاؤ کی ایک ویکسین موجود ہے جو ہم تمام عمر رسیدہ اور دیگر پیچیدگیوں میں مبتلا افراد کو موسم سرما کے آغاز سے پہلے قطرے پلانے کا مشورہ دیتے ہیں تاہم کوویڈ 19 کے لئے ابھی تک کوئی ویکسین دستیاب نہیں ہے۔