قدیم اسلامی تہذیبوں میں “وقف” کا محکمہ قائم کیا گیا تھا، یہ محکمہ مخیر لوگوں کی طرف سے دیئے گئے عطیات کو معاشرے کے غرباء میں تقسیم کرنے کا کام انجام دیتا تھا۔
لوگ اللہ کی خوشنودی کے لئے اپنی جائیدادیں بھی وقف کے حوالے کردیا کرتے تھے۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں محکمہ اوقاف حاصل ہونے والے پیسے سے غربا کی فلاح و بہبود کے مختلف منصوبے مکمل کرتے تھے جس میں تعلیم اور انفرا اسٹرکچر بھی شامل تھے۔
سلطنت عثمانیہ نے وقف کے نظام کو اسلامی روایات میں ڈھال دیا تھا، یہ محکمہ سماجی، معاشی، ثقافتی اور مذہبی خدمات انجام دیتا تھا۔ وقف کا نظام دور دراز کے دیہاتوں تک پھیلا ہوا تھا۔
سلطنت عثمانیہ کے دور میں وقف کے تحت معاشرے کے غریبوں کی ضرورتوں کو پورا کیا جاتا تھا۔ عثمانیہ دور میں وقف کے نظام کو ایک ادارے کی شکل دی گئی جس کے بعد وقف کا نظام سرکاری اداروں میں ایک اہم ادارے کی حیثیت اختیار کرگیا۔
اسلامی تہذیب میں وقف کے نظام میں سب سے زیادہ جدت سلطنت عثمانیہ میں دیکھنے میں آئی جس نے معاشرے کے ہر طبقے کے لئے آسانیاں فراہم کیں۔
سلطنت عثمایہ کے بانی عثمان غازی کے بیٹے اورہان غازی کے دور میں سب سے پہلے وقف کا نظام ازنک میں شروع کیا گیا جس کے تحت ایک مدرسہ قائم کیا گیا جہاں داوٗد کیزری مدرس تھے۔
اورہان غازی نے اپنی کئی جائیدادیں وقف کے نام کیں جس سے غربا اور مساکین کی ضرورتیں پوری کی جاتی تھیں۔
وقف کے پیسے سے پانی کی سبیلیں، سڑکوں کے کنارے چلنے کے راستے بھی بنائے جاتے تھے۔ تعلیم کے شعبے میں محکمہ اوقاف کے تحت کئی اسکول، مدرسے اور لائبریریاں بنائی گئیں۔ صحت کے شعبے میں اسپتال اور کلینکس کھولے گئے۔
اسی پیسے سے سرائے بھی قائم کی گئیں جہاں مسافروں کو رات گزارنے کے لئے جگہ دی جاتی اور ان کے کھانے پینے کا انتظام کیا جاتا تھا۔
محکمہ اوقاف نے کئی بازار بھی بنائے جہاں لوگوں کو کاروبار شروع کرنے کے مواقع دیئے جاتے تھے۔