’’مدارس کا خون مفت نہیں‘‘

111

یہ پشاور میں دیر کالونی میں موجود مدرسہ زبیریہ تھا جہاں نماز فجر کے بعد قال قال اللہ تبارک و تعالیٰ اور قال قال رسول اللہؐ کی صدائیں اردگرد فضاؤں میں گونجنے لگتی ہیں، آج بھی خصوصی درس حدیث تھا عشاقان رسول ذکر نبیؐ کی برکتوں کو دامن میں سمیٹنے کے لیے بیقرار تھے، علم کے سپاہی کاغذ قلم تھامے نور علم سے کفر کی ظلمتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مستعد تھے وہیں اسلام دشمن عناصر بھی اپنی تمام تر تیاری اور مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے تیار بیٹھے تھے کون جانتا تھا ان مقدس کتابوں اور قلم کے درمیان دشمن حق بھی انسانیت کی جان لینے کے لیے انھی کا روپ دھارے بیٹھا تھا اوراس کے بستے میں کتابوں کی جگہ 5 سے 6 کلو بارودی مواد چھپا رکھا تھا کچھ ہی دیر میں شیخ الحدیث حقانی صاحب کا درس مشکواۃ شروع ہوا تحمید و تمہید کے بعد ابھی درود شریف کی فضیلت والی حدیث بیان ہی فرمائی تھی کہ ایک زور دھماکا ہوا، کچھ ہی دیر میں ہر طرف خاک و خون پر انسانیت تڑپ رہی تھی چاروں طرف معصوم لوگوں کی چیخ و پکار۔۔۔ آٹھ سے زیادہ شہید اور نوے سے زائد زخمیوں کے خون سے دشمنی کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی ناکام کوشش پر باطل اپنی کامیابی سمجھ رہا تھا۔ قرآن و صحاح ستہ کی بابرکت کتابیں لہو آلود ہوچکی تھیں لیکن ان کتابوں سے حاصل شدہ سبق لازوال ہے۔ مہمانان رسول کے دشمن بھول گئے کہ اجسام کو موت آسکتی ہے خاکی وجود مردہ ہوسکتے ہیں اذہان و افکار مردہ نہیں ہوتے۔ اور ہوا بھی یوں ہی۔ کچھ ہی دیر میں سب حق کے شیدائی اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتے ہوئے اسی مسجد میں نماز ظہر ادا کر رہے تھے گو یا کہ
نور خدا ہے کفر کی ظلمت پہ خنداں زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
اور حق کو زوال ہے بھی کب؟؟
گرچہ یہ سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور جیسا ہی ہے، وہی طلبہ کا خون، وہی لہو آلود لوح و قلم۔ وہی علم کے لیے گھروں سے نکلے معصوم بچے دشمنوں کے نشانے پر۔۔۔ یہ دینی و دنیاوی علم کی تفریق تو ہماری ہی بنائی ہوئی ہے ورنہ جو علم ہدایت کی طرف لے جائے عصری و دینی سب ہی ایک جیسے ہیں، اس حادثے نے اہل فکر کو ایک بار پھر سوچنے پر مجبور کردیا کہ کیا ہم اپنے نسلوں کا خون یونہی بہاتے رہیں گے۔۔؟؟ کیا مدارس یونہی تفریق اور دہشت گردی کے نشانے پر رہیں گے؟؟ کیا اجتماعات کی سیکورٹی اداروں کی ذمے داری نہیں؟؟ کیا مدارس کے طلبہ کا خون مفت و ارزاں ہے؟ کیا مدارس کے منتظمین کی ذمے داری نہیں کہ وہ اجتماعات سے پہلے سیکورٹی اداروں کی مدد لے لیں؟؟ کیا یہ حادثہ ریاست کا امتحان نہیں کہ وہ یکساں تحفظ فراہم کرے۔ پے درپے اسی طرح کے حادثوں کا شکار تعلیمی ادارے ومدارس ہیں!! کیا علم کے پیاسے یونہی شکار ہوتے رہیں گے؟ آخر کب تک؟ کب تک ریاست جاگے گی؟ کیا اس شہید قرآن پاک کی کھلی آیات قتال میں ان کے لیے کوئی پیغام نہیں ملا۔۔؟؟ کیا حفاظت صرف عسکری اداروں کے لیے ضروری ہے؟؟ یہ معصوم شہید جو کچھ ہی بعد دستار فضیلت سجانے والے تھے تہہ خاک جاکر اپنے ربّ سے فریاد نہیں کریں گے؟؟ کیا ان کا سوال نہیں ہوگا؟؟ کس جرم میں قتل کی گیا؟ سیکورٹی اداروں کو جاگنا ہوگا؟؟ مہتمم اور منتظمین مدارس کو چوکنا و ہوشیار رہنا پڑے گا۔ کیوں کہ مدارس کا خون بھی مفت نہیں۔