رونمائی

136

=یہاں رونمائی سے مراد کسی دلہن کی رونمائی کا ذکر نہیں ہے بلکہ رونمائی سے میری مراد کتاب کی رونمائی سے ہے اکثر شاعر اور لکھاری حضرات اپنی شاعری کے مجموعے کو کتابی شکل دیتے ہیں یا نثر نگار کوئی کتاب تصنیف کرتے ہیں دونوں صورتوں میں اس کی رونمائی ضروری ہوتی ہے سب سے پہلے تو صاحب کتاب اپنی کتاب کی کم از کم دو کاپیاں کچھ دانشوروں کو بھجوا دیتے ہیں تاکہ وہ اس کو پڑھ کر اس پر اپنا تبصرہ کر سکیں پھر دعوت نامہ چھاپا جاتا ہے اور شعر و ادب کے حلقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ عموماً ایسی تقریبات آرٹس کونسل۔ پریس کلب یا کسی ہوٹل یا شادی ہال میں منعقد کی جاتی ہیں جس کے بعد دعوت کا انتظام ہوتا ہے اس پروگرام کی ترتیب کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ پہلے ایک صاحب اس کتاب کا مختصر سا تعارف اور جائزہ پیش کرتے ہیں ساتھ ہی صاحب کتاب کا بھی تعارف پیش کیا جاتا ہے اس کے بعد تبصرہ نگار اور ناقد کا نمبر آتا ہے یہ دانشور اکثر وبیش تر تو کتاب اور صاحب کتاب کی تعریف و توصیف میں زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں اور ایسے ایسے اعلیٰ خیالات کا اظہار کرتے ہیں کہ جو صاحب کتاب کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم ایک ایسی ہی تقریب میں شریک ہوئے اور لطف کی بات یہ ہے کہ ایک صاحب نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے بغیر کسی تکلف کے فرمایا کہ مصروفیت کی وجہ سے میں اس کتاب کا مطالعہ نہیں کر سکا پھر بھی میں نے اس پر کہیں کہیں سے نظر ڈالی ہے اور اس کے بعد ایک اسٹوریو ٹائپ تبصرہ پڑھ کر سنا دیا اتفاق سے ہم اس تبصرے کو اس سے پہلے بھی کئی تقریبات رونمائی میں سن چکے تھے اس میں کتاب اور صاحب کتاب کے بارے میں بڑی لفاظی سے کام لیا گیا تھا جس طرح کچھ لوگ کسی چوری کی غزل میں اپنا تخلص ڈال کر مشاعروں میں سنانے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح اس تبصرے میں صرف کتاب اور صاحب کتاب کے نام کی تبدیلی تھی باقی سارا مضمون وہی تھا جو ہم پہلے بھی کئی بار سن چکے تھے۔ اس بے تکلفی اور ڈھٹائی پر ہم حیران رہ گئے۔
مگر مسئلہ یہ ہے چند سکہ بند قسم کے تبصرہ نگار مارکیٹ میں موجود ہیں اور بخوشی اس کام کے لیے راضی ہو جاتے ہیں جیسے اکثر مقررین کچھ اقوال زریں کچھ اشعار کچھ واقعات رٹ لیتے ہیں اور بڑی خوبصورتی سے اسے اپنی ہر تقریر میں فٹ کر لیتے ہیں چاہے تقریر کا عنوان کچھ بھی ہو اس طرح کے تبصروں کے بعد ظاہر ہے دعوت شیراز ہوتی ہے صاحب کتاب پھولا نہیں سماتا کہ اس کی کتاب پر ایسے ایسے علم و معانی کے دریا بہائے گئے ہیں جس کا علم خود اس کو بھی آج ہی ہوا ہے۔ وہ بے چارہ تبصرہ نگاروں کے سامنے بچھا جاتا ہے اور شکریہ کے ساتھ ساتھ ان کا احسان مند بھی ہوتا کہ جنہوں نے نہ صرف تقریب کو رونق بخشی بلکہ صاحب کتاب کی بھی عزت افزائی اور حوصلہ افزائی کی اور کتاب اور محفل کو چار چاند لگا دیے۔ بعض حضرات کو تو اپنی کتاب کی پزیرائی کے لیے کئی کئی بار مختلف مقامات اور شہروں میں ایسی تقریبات کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔
کچھ اشعار جو ہر جگہ استعمال ہوسکتے ہیں۔
کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اب یہ شعر ہر اس کتاب کی رو نمائی میں استعمال ہو سکتا ہے جو اقبالیات سے متعلق ہو۔ یا نعتیہ مجموعہ کلام سے متعلق ہو یا پھر سیرت النبیؐ سے متعلق ہو۔
درد دل کے لیے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
یہ شعر بھی خواجہ میر درد۔ اردو شاعری۔ درد دل اور حضرت انساں۔ اور عبادت و ریاضت جیسے موضوعات پر لکھی گئی کتابوں پر فٹ بیٹھتا ہے۔
زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر
یا وہ جگہ بتا دے جہاں کہ خدا نہ ہو
ظاہر ہے یہ شعر چچا غالب۔ شراب پینے کے جواز۔ خدا کی ہر جگہ موجودگی کے فلسفے پر دال ہے۔
اب ہم آتے ہیں اقوال زریں کی طرف۔
ان میں سب سے زیادہ تو اقوال سیدنا محمد عربیؐ یا سیدنا علیؓ کے ملتے ہیں۔ جو بطور خاص مذہبی کتب وغیرہ کے لیے کارآمد ہیں۔
اس کے بعد اگر کوئی کتاب فلسفہ یا منطق سے متعلق ہو تو اس کے لیے سقراط، بقراط، ارستو، افلاطون وغیرہ ہی کافی ہیں۔ طنز و مزاح کی کتابوں کے لیے پطرس اور ابن انشاء کے حوالوں کے ساتھ ساتھ مشتاق یوسفی کا تڑکہ بھی کافی پر اثر ہے۔ مگر اصل حقیقت تو جب کھلتی ہے جب وہ کتاب مارکیٹ میں پڑے پڑے گرد آلود ہو جاتی ہے اور بالآخر ردی کے بھائو بکتی ہے یا فٹ پاتھ کی زینت بنتی ہے نجانے کیوں اس سارے معاملے میں شاعری اور لفاظی سے کام لیا جاتا ہے اور غلط بیانی کی جاتی ہے یہ نہ تو ادب کی کوئی خدمت ہے نہ ہی صاحب کتاب کے ساتھ دوستی ہے اگر سچائی کے ساتھ تبصرہ کیا جائے اور سادہ اور آسان الفاظ میں تبصرہ کیا جائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس کو زیادہ پزیرائی مل سکتی ہے اور اس طرح صاحب کتاب کو بھی آئندہ بہتر کارکردگی دکھانے کا موقع ملتا ہے اور قارئین بھی صحیح رائے قائم کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔