سود کا نظام

196

سود ایک ایسی لعنت ہے جس نے پاکستان کی معیشت اور ترقی کا پہیہ جام کر رکھا ہے۔ سود نے نہ صرف یہ کہ ہماری معیشت کو تباہ و برباد کر دیا بلکہ اسے بالکل کھوکھلا بھی کر دیا ہے۔ سود کی وجہ سے ملک میں بے برکتی ہوگئی ہے اور بدترین مہنگائی، غربت، بے روزگاری اور جرائم میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ 1948میں قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے اسٹیٹ بینک کی افتتاحی تقریب میں ملک سے سودی نظام کے خاتمے کا اعلان کیا تھا اور ملک میں بلاسود معیشت کو اختیار کرنے کی واضح ہدایت جاری کی تھی لیکن افسوس کہ اب تک ان کی ہدایت پر عمل نہیں ہوسکا اور ملک سودی نظام کے شکنجے میں بری طرح جکڑا ہوا ہے۔ سود کے خاتمے کے لیے آئین کے آرٹیکل F.38 پر آج 40سال کا عرصہ اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو بھی 30سال کا طویل عرصہ بیت چکا ہے لیکن افسوس کہ ملک سے سودی نظام ختم نہیں ہو سکا۔ ملک آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور ملک کی معیشت مکمل طور پر برباد ہوچکی ہے۔ سودی نظام کی وجہ سے غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے۔ سود اللہ اور اس کے رسول ؐسے جنگ کے مترادف ہے۔ لیکن ہمارے حکمران اقتدار کے نشے میں مدہوش ہیں اورکھلم کھلا اللہ اور اس کے رسول ؐ سے بغاوت اور جنگ کی جارہی ہے۔ ریاست مدینہ کے دعویدار حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی اسلامی معاشی نظام، غیرسودی بینکاری نظام کے لیے وفاقی شرعی عدالت میں سود کے حق میں دی گئی نواز شریف کی درخواست فوری طور پر واپس لیں اور آئندہ اس مقدمے کی پیروی نہ کی جائے۔ یہ نظام انسانوںکے مابین معاشی عدل قائم کرنے اور عالمی سطح پر ہونے والی کشمکش کے تدارک میں مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے۔ آج کی دنیا اپنی صنعتی ترقی، مشینی ایجادات کے باوجود بدترین انتشار، بگاڑ اور تنزلی کا شکار ہے۔ مغرب کا معاشی نظریہ ہماری ترقی میں رکاوٹ ہے اور یہ نظام ہمیں خوشحالی کی جانب گامزن نہیں کرسکتا۔ سودی نظام نے پاکستان کو بدترین معاشی مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔ ہر شعبے میں خود کفیل اور جفا کش ہونے کے باوجود پاکستان کا شہری آج دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان ہے۔ اس ظالمانہ اور فرسودہ نظام نے چند خاندانوں کے ضرور محلات تعمیر کرا دیے ان کی دولت کے انبار بھی لگ گئے لیکن دوسری جانب ملک وقوم غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ان کے پاس رہنے کو مکان ہے اور نہ کھانے کو روٹی، پہنے کو کپڑا ہے اور نہ صحت تعلیم کی کوئی سہولت غرض یہ کہ ایک دلدل ہے جس میں یہ قوم دھنستی ہی جا رہی ہے۔
پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا ہمارے حکمرانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اسلام کے معاشرتی عدل وانصاف پر مبنی معاشی نظام کو دنیا کے سامنے پیش کرے اور سسکتی ہوئی انسانیت کو چند ہاتھوں میں یرغمال ہونے سے بچایا جائے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا فرض ہے کہ ہم سود اور سودی نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور چند سرمایہ داروں کے مفاد کے لیے قائم سودی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ اسلام کا نظام معیشت ہی انسانیت کے لیے امن اور اس کی فلاح وبہبود، ترقی اور سلامتی کا پیغام اور ضامن ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وفاقی شرعی عدالت اور عدالت عظمیٰ کے شرعی اپلیٹ بینچ کے فیصلے پر عمل درآمد کر کے سودی معیشت کا مکمل طور پر خاتمہ کریں اور ملک میں اسلامی اور سود سے پاک معیشت کو فروغ دیا جائے۔ سود ایک لعنت ہے اور سراسر ظلم اور استیصال پر مبنی نظام ہے۔ اس معاشی تباہی سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم سودی معیشت سے تائب ہوکر اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جاری جنگ کو ختم کریں۔ 73سال سے ملک کے اقتدار پر قابض انگریز کے وفاداروں نے وہی نظام مسلط کر رکھا ہے جس سے نجات کے لیے لاکھوں افراد نے اپنی جانیں قربان کی۔ آج دنیا کے 75ملکوں نے سود سے پاک بینکاری کا آغازکردیا ہے مگر افسوس ہماری معیشت آج بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ملازموں کے ہاتھوں میں ہے جو کسی بھی قیمت پر سود سے نجات نہیں چاہتے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ ہے کہ آئندہ دو سال میں معیشت کی شرح نمو صفر اعشاریہ پانچ رہے گی۔ جس کا مطلب ہے کہ ملک میں مہنگائی، بے روزگاری اور غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔ ملک میں پہلے ہی غربت مہنگائی کا راج ہے۔ عام آدمی فاقوں پر مجبور ہوگیا ہے۔ ملک کی مجموعی آمدن جس کی آدھی رقم سود کی ادائیگی میں چلی جاتی ہے اور جتنا قرضہ لیا جائے گا اس کی ادائیگی بھی اتنی ہی مشکل ہوجاتی ہے۔ ہر قرضہ اپنے ساتھ ڈیڑھ گنا بوجھ لاتا ہے اور اس بوجھ کو اُتارنے کے لیے مزید قرضے لیے جاتے ہیں جو اگلے مالی سال میں سوا دوگنا بن جاتے ہیں اور بس پھر ایک نیا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
مغربی سرمایہ پرستی اور سرمایہ دارانہ نظام پوری دنیا کے نظام اور منڈی کو کنٹرول کرنے اور اسے اپنے قبضے میں کرنے کے لیے تمام پالیسیاں بناتا ہے جبکہ دین اسلام عام آدمی کو ریلیف دینے کے لیے پالیسیاں بناتا ہے۔ اسلام معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے دولت کے ارتکازکو روکتا ہے اور دولت امیروں سے لے کر غریبوں میں تقسیم کرتا ہے۔ یتیموں بیوائوں اور حاجت مندوں کی کفالت کرتا ہے۔ 73سال ایک طویل عرصہ ہوتا ہے اس عرصے میں دنیا کہ دیگر آزاد ہونے والے ممالک آج ہم سے زیادہ خوشحال اور ترقی یافتہ ہوچکے ہیں۔ ان ممالک کی تعلیم، خواندگی، معیشت، تجارت، صنعت اور برآمدات ہم سے بہتر اور بہت زیادہ آگے ہے۔ اسلامی حکومت میں کسی مسلم، غیر مسلم، ملکی یا غیر ملکی سرمایہ دار کو سودی کاروبار کی قطعاً اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ملک میں اگر سودی نظام ختم کر دیا جائے تو ملکی سرمایہ دارخوشحال ہوگا۔ تجارتی وصنعتی نشوونما اور پیداواری نظام میں ترقی اور خوشحالی آئے گی۔ اسلام کا عادلانہ نظام ہی ہمارے تمام مسائل ومشکلات کا واحد حل ہے۔ دنیا کو سکون وچین، راحت خوشحالی حاصل کرنا ہے تو وہ مدینے کے اس نظام کو عملی طور پر نافذ کرے جس میں زکوٰۃ دینے والے تو موجود تھے لیکن زکوٰۃ لینے والاکوئی نہیں تھا۔ دنیا کو قدیم اور جدید زمانوںکے نظام سے نہیں بلکہ خالصتاً اسلام کے بنائے ہوئے سنہری اصولوں کے مطابق عمل پیرا ہوکر کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ سود ایک ناسور ہے جس کا مکمل خاتمہ ہی ہمارے مسائل کا واحد حل ہے۔