بھارتی انتہاء پسند حکومت کا’لوجہاد’ قانون لانےکااعلان

270

بھارت میں حکمراں جماعت (بی جےپی) نے 5 ریاستوں میں جہاں انکی حکومت ہے وہاں ‘لو جہاد’ کے خلاف قانون لانے کا اعلان کردیا۔

بھارت کےتجزیہ کاروں کے مطابق ‘لو جہاد’ وہ  اصطلاح ہے جس کا اختراع دائیں بازو کی ہندوتوا نواز جماعتوں نے ہندو خواتین کی مسلم مردوں سے ہونے والی شادی کے بارے میں کیا ہے۔’لو جہاد ‘ کی اصطلاح کا پرچار کرنے والے الزام عائد کرتے ہوئے مسلم لڑکے ہندو لڑکیوں کو اپنی محبت کے جال میں پھنسا کر اُن کا مذہب تبدیل کراتے ہیں اور پھر اُن سے شادی کرلیتے ہیں۔

دوسری جانب اس بات کو بھی بھارتی میڈیا نے لوگوں تک پہنچایا کہ مسلم لڑکے کو ہندو لڑکی سے شادی کرنے پر خلیجی ملکوں سے 10،10 لاکھ روپے ملتے ہیں تاہم تجزیہ کار اور انسانی حقوق کے علمبرادروں کے مطابق اس طرح کے الزامات لگانے والے اس سلسلے میں آج تک ایک بھی ثبوت پیش نہیں کرسکے۔

بھارت میں گاہے بگاہے لو جہاد کا موضوع زیرِ بحث رہتا ہے۔ اِن دنوں یہ اصلاح ایک مرتبہ پھر خبروں کی زینت بنی ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ بھارت میں لو جہاد’ کی اصطلاح سب سے پہلے 2009 میں منظرِ عام پر آئی تھی۔ ایک ویب سائٹ ‘ہندو جاگرتی ڈاٹ او آر جی’ نے دعویٰ کیا تھا کہ مسلم یوتھ فورم نامی ایک تنظیم نے ‘لو جہاد’ نامی پوسٹرس آویزاں کیے ہیں جن میں ہندو لڑکیوں کو محبت کے بعد مذہب کی تبدیلی اور ان کی مسلمان لڑکوں سے شادی کی بات کہی گئی تھی۔

ریاست کیرالہ کی پولیس نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں ‘لو جہاد’ کے دعوے کو یہ کہہ کرمسترد کردیا تھا کہ اس کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں۔  بعدازاں کیرالہ ہائی کورٹ کے جسٹس ایم ششی دھرن نامبیار نے بھی کہا تھا ہمارے معاشرے میں بین المذاہب شادیوں کا رواج ہے اور یہ کوئی جرم نہیں۔

مدھیہ پردیش کے وزیرِ داخلہ نروتم مشرا نے 17 نومبر کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ریاستی اسمبلی میں ‘فریڈم آف ریلیجن بل 2020’ پیش کیا جائےگا جس میں ‘لو جہاد’ کے قصوروار کو 5 سال قید کی سزا ہوگی۔