نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) بھارت میں مودی سرکار کی نااہلی سے تنگ کسانوں نے یوم دستور کے موقع پر نئی دہلی کی جانب مارچ شروع کردیا۔ دوسری جانب حکومت نے کورونا اقدامات کے نام پر مظاہرین کے گرد گھیرا تنگ کردیا اور پولیس کو ظلم و تشدد کی کھلی چھوٹ دے دی۔ خبررساں اداروں کے مطابق نئی دہلی کے سرحدی علاقوں میں بڑی تعداد میں پولیس اہل کار تعینات کردیے گئے۔ مظاہرین نے ہریانہ اور راجستھان نے مارچ شروع کیا، جس پر مقامی حکومت نے ان کے خلاف سخت کارروائی کی۔ ہریانہ کی پولیس نے کسانوں پر آنسو گیس کی بے دریغ شیلنگ کی اور انہیں منتشر کرنے کے لیے پانی کی توپوں کا بھی استعمال کیا۔ پنجاب سے کسانوں کا ایک بڑا گروہ ٹریکٹر اور ٹرالیوں میں سوار ہوکر مارچ میں شامل ہوا۔ ہریانہ کی پولیس نے ٹرک اور بسیں کھڑی کر کے شاہراہوں کی ناکا بندی کردی۔ اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور مظاہرین تمام رکاوٹیں روندتے ہوئے ہریانہ میں داخل ہوگئے۔ نئی دہلی پولیس نے سرحدی علاقوں میں میٹرو اسٹیشن بند کردیے اور شہر میں داخل ہونے والوں کسانوں کو دھڑا دھڑ گرفتار کرنا شروع کردیا۔ خبررساں اداروں کے مطابق کسانوں کی تنظیموں نے ملک گیر ہڑتال کی کال دی تھی،جس جس کا کیرالا اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں میں خاصا اثر دیکھنے میں آیا۔ کئی علاقوں میں کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر رہیں اور مشتعل کسانوں نے شاہراہوں کو رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کردیا۔ مودی سرکار کے ظالمانہ اقدامات پر تمام اپوزیشن جماعتیں مسلسل تنقید کررہی ہیں،تاہم حکومت بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ پنجاب کے وزیر اعلی امریندر سنگھ کا کہنا ہے کہ کسانوں کو پر امن احتجاج کا پورا حق ہے اور ہریانہ کی حکومت ان کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے۔ کانگریس کی رہنما پریانکا گاندھی نے بھی پولیس کی کارروائی پرتنقید کرتے ہوئے کہا کہ کسان پر امن احتجاج کر کے حکومت کو اپنا موقف پیش کرنا چاہتے ہیں، تاہم مودی ان کی بات سننے کے بجائے انہیں طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نئی دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال نے اپنی ٹویٹ میں کہاکہ کاشتکاری سے متعلق تینوں بل کسان مخالف ہیں اور حکومت انہیں واپس لینے کے بجائے کسانوں پر طاقت کا بے جا استعمال کر رہی ہے۔