ڈھول کی تھاپ پر سلام شہدا

159

ابھی جمعہ ہی کو تو ہمارے شیعہ بھائیوں نے یوم عاشور گزر جانے کے بعد سوئم کے نام پر آدھا شہر بند کرایا تھا اور دو دن بعد گزشتہ اتوار کو شاہ صاحب کی حکومت نے پورا شہر بند کرادیا۔ محرم میں تو شہر جگہ جگہ سے بند ہوتا ہی ہے، اہم شاہراہ ایم اے جناح روڈ کی مکمل ناکہ بندی کردی جاتی ہے، دکانیں بند اور فلیٹوں کے مکین محصور۔ اس محاصرے سے اکثریت کو جو پریشانی ہوتی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ جمعہ کو ساڑھے تیرہ سو سال بعد شہداء کربلا کا سوئم منایا گیا جس کی اسلامی تاریخ میں کوئی مثال، کوئی روایت نہیں ملتی۔ کسی کے انتقال پر تین دن تک سوگ منانے کی اجازت تو ہے لیکن سیّدنا علیؓ کی شہادت، حضرت فاطمہ اور حضرت حسن کے انتقال کے بعد بھی برسوں تک سوئم منانے کی کوئی روایت نہیں ملتی۔ چلیے، آپ سوئم منائیں، ماتم کریں لیکن راستے بند کرکے عوام کو اذیت میں مبتلا تو نہ کریں۔ گلستان جوہر کی جس طرح ناکہ بندی کردی جاتی ہے اس کا کوئی جواز نہیں۔ لوگ اپنے گھروں سے نہیں نکل سکے اور جو اپنے کام سے نکل بھی گئے وہ رات گئے تک واپس نہیں آسکے۔ حکومت کا کام لوگوں کو سہولتیں فراہم کرنے اور راستے کھلے رکھنا ہے لیکن یہ عجیب تماشا ہے کہ خود حکومت اور اس کے تمام ادارے راستے بند کرانے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ جوہر چورنگی پر جمعرات کی شب ہی سے رینجرز نے رکاوٹیں کھڑی کرنی شروع کردیں، کسی کو ہسپتال جانا ہو یا کسی اور ضروری کام سے نکلنا ہو تو وہ نہیں جاسکتا۔ عاشورہ محرم میں یہ بھی دیکھا گیا کہ سڑک ہی پر مجلس برپا کردی گئی اور جنازے کو لے جانے کے لیے بھی راستہ نہیں ملا۔ جوہر موڑ سے جوہر چورنگی تک 7 سبیلیں لگائی گئیں جہاں انتہائی بلند آواز میں مرثیے نشر کیے جاتے رہے۔ ایک دن رینجرز نے ساؤنڈ سسٹم اُٹھالیا تو پھر سڑک بند کردی گئی۔ جب کہ اگر کسی گاڑی میں ساؤنڈ سسٹم لگا ہو اور کوئی ہلکی آواز میں گانے سن رہا ہو تو پولیس گاڑی ضبط کرکے ایف آئی آر کاٹ دیتی ہے، اب عدالت کے چکر کاٹتے رہو۔ فٹ پاتھوں پر لگائی گئی سبیلوں میں تین چار لڑکے ہی کھڑے ہوتے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے حکم پر ساؤنڈ سسٹم واپس کرکے بلند آواز میں مرثیے نشر کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ ان معاملات پر خود شیعہ علماء کو توجہ دینی چاہیے کہ کیا یہ سب فقہ جعفریہ کا لازمی حصہ ہے؟
اسی اثنا میں لندن سے ایک نیا چہرہ آیت اللہ عقیل الغروی کی مجلس چینل 24 پر بار بار نشر کی گئی جس میں آیت اللہ صاحب حضرت علیؓ کے داماد اور رسولؐ اکرم کے سسر خلیفہ دوم سیّدنا عمر فاروقؓ کا نام لیے بغیر ان پر تبراّ کرتے رہے اور پھر یہ بھی کہا کہ میں کہاں تک تقیہّ کروں۔ چینل 24 کو تو کیا کہا جائے لیکن پیمرا نے بھی نوٹس نہیں لیا۔ خود شیعہ علماء کرام کو تو اس سے برأت کا اظہار کرنا چاہیے تھا ورنہ یہ دعویٰ بے بنیاد ہو جاتا ہے کہ عاشورہ محرم میں بھائی چارے اور ہم آہنگی میں اضافہ ہوا ہے۔ کیا خلفائے راشدین پر تبراّ کرنے سے بھائی چارہ بڑھے گا؟ سیّدنا علیؓ کے دربار میں تو یہ نہیں ہوتا تھا۔
شہر کی ناکہ بندی میں جو کسر رہ گئی تھی وہ حکومت سندھ نے اتوار کو پوری کردی۔ شہریوں کا ایسا محاصرہ کہ ہسپتال جانے کے راستے بھی بند۔ سندھ کے بڑے وزیرمراد علی شاہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’ریلی کے لیے ہسپتال کے راستے بند نہیں کیے گئے‘‘۔ وہ اُونچے کنٹینر پر چڑھے غالباً دور بین سے دیکھ رہے تھے۔ وہ بڑے وزیر اور ’’شاہ‘‘ بھی ہیں اس لیے یہ کہنے کی جرأت تو نہیں کی جاسکتی کہ وہ غلط کہہ رہے ہیں۔ لیکن ذاتی تجربہ اس کے برعکس ہے۔ مجھے کالا پل پر قائم نیشنل میڈیکل سینٹر جانا تھا اور شاہراہ فیصل سے ایف ٹی سی کے ساتھ ہسپتال کو جانے والی سڑک کنٹینر لگا کر بند کردی گئی تھی۔ ٹی وی پر ایک خاتون کہہ رہی تھیں کہ وہ اپنی بیمار بہن کو دیکھنے جناح ہسپتال جانا چاہتی تھیں، مگر راستہ نہیں ملا۔ امراض قلب کا ہسپتال اور سول ہسپتال کے راستے بھی بند کردیے گئے تھے۔ ایمبولینسیں ہجوم میں پھنسی ہوئی تھیں۔ مراد علی شاہ صاحب بتائیں، وہ کون سے بڑے ہسپتال تھے جن کے راستے بند نہیں تھے۔ یہ تو بلاول کی قیادت میں حکومت سندھ کا سرکاری وسائل پر ایک بڑا شو تھا لیکن برخوردار بلاول جب سول ہسپتال کا دورہ کرنے پہنچے تھے تو اس وقت بھی ہسپتال کے تمام راستے اور دروازے مریضوں پر بند کردیے گئے تھے اور ایک بچہ اپنے باپ کے بازوؤں میں دم توڑ گیا تھا۔ مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ کراچی کے عوام کو بلاول جیسے پُرعزم اور بے باک لیڈر کی ضرورت ہے، ان کی پھپھو نے بلاول کے بازو پر تو امام ضامن باندھا لیکن عوام کی سلامتی کا ضامن کون ہے؟
کیسی عجیب بات ہے کہ 14 گھنٹے تک شہر اور عوام کو محصور کرکے جن شہیدوں کی یاد میں ’’سلام شہدا‘‘ ریلی نکالی گئی اس میں ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑا ڈال کر اور رقص کرکے شہیدوں کو سلام پیش کیا گیا۔ یہ پیپلزپارٹی نے اپنے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا نرالا ڈھب نکالا ہے۔ شاید بی بی کے یوم شہادت پر بھی یہی کچھ ہو۔ لیکن سانحہ کار ساز میں جو 177 افراد جاں بحق ہوگئے تھے، کیا بلاول نے اُن کے لواحقین کی خبر لی۔ وہ جو زخمی ہوگئے تھے کیا ان کی مدد کی گئی؟ ان زخمیوں کی طرف سے بھی کئی خطوط موصول ہوئے کہ ان کی کوئی مدد نہیں کی گئی۔ اب وہ بھی مایوس ہو کر بیٹھ رہے ہیں۔ شہدا کے لیے رقص کرنے والوں میں پی پی کے رہنما بھی شامل تھے۔ قمر زماں کائرہ بظاہر بڑے معقول اور سنجیدہ شخص ہیں لیکن وہ بھی کنٹینر پر چڑھے ٹھمکے لگا رہے تھے اور پھر لڑکھڑا بھی گئے۔ اب اس عمر میں ناچیں گے تو یہ تو ہوگا۔ یہ تو پرویز مشرف ہی ہیں جو ٹوٹی کمر کے ساتھ بڑی کامیابی سے ٹھمکے لگا لیتے ہیں، کائرہ صاحب ان کی نقل نہ کریں۔
عوام سے بلند ہو کر بلاول نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’تیر کمان سے نکل گیا‘‘۔ اس پر فاروق ستار نے ایک غلط سلط شعر پڑھ دیا۔ تیر پر تیر چلاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے۔ جب تیر چل ہی چکا تو عوام، خاص طور پر اہل کراچی کو اپنی فکر کرنی چاہیے کہ جانے یہ کہاں جا کر ترازو ہو۔ بلاول صاحب کو تیر اور تُکے کا فرق تو معلوم نہیں ہوگا، کائرہ یا کوئی پڑھا لکھا شخص سمجھادے۔ تیر نکل جائے تو خالی کمان رہ جاتی ہے۔ اس پر 27 دسمبر کو پھر لانگ مارچ کی دھمکی دے دی گئی ہے۔ عمران خان تو 2 نومبر کو ملک بھر کے راستے بند کریں گے، اہل کراچی کئی بار بند ہوچکے ہیں۔ تحریک انصاف نے سوال اُٹھایا ہے کہ 16 اکتوبر کو شہر بند کرانے پر کس کے خلاف ایف آئی آر کٹے گی؟ ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ کراچی کو مستقل طورپر نو گو ایریا قرار دے دیا جائے ورنہ کم از کم محرم کے 12 دن عام تعطل کا اعلان کیا جائے۔