وفاق کا دینی حلقوں کے تحفظات دور کرنے کا اعلان 

213

کالعدم جماعتوں ،شیڈول فور کے تحت بنک اکاؤنٹس،شناختی کارڈزکو بلاک کئے جانے و دیگر کے معاملات پر دفاعِ پاکستان کونسل کے قائدین مزاکرات کے لئے مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں وزرات داخلہ پہنچ گئے قائدین نے وزیرِداخلہ چوہدری نثار علی خان سے ملاقات کی تحفظات سے آگاہ کردیا ہے کہ درپیش موجودہ حالات نے دینی قوتوں کا پیمانہ صبر لبریز کردیا ہے دانستہ ہر محاذ پر دیوار سے لگانے کی سازش کی جارہی ہے اور انہیں سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ وفاق نے تمام صوبائی حکومتوں سے مل کر دینی حلقوں کے تحفظات دور کرنے کا اعلان کردیا ہے ساتھ حکومت نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ سیکیورٹی کی بحالی میں دینی قوتوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے انہیں کسی صورت بھی نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

 جمعہ کو اسلام آباد سے جاری سرکاری بیان میں کہا گیا ہے مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں وفد کی وزیرِداخلہ سے ملاقات میں سیکیورٹی سمیت مجموعی ملکی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا وفد میں مولانا محمد اویس نورانی، مولانا محمد احمد لدھیانوی، مولانا فضل الرحمان خلیل، قاری محمد یعقوب شیخ، میاں محمد اسلم اور دیگر رہنما شامل تھے وفد نے وزیرِداخلہ سے دوگھنٹے کی طویل ملاقات کی وفد نے واضح کیا کہ اسلام اور پاکستان کے حوالے سے ہر عمل اور ہر قدم میں پیش پیش ہوں گے: ملکی سیکیورٹی صورتحال کو بہتر بنانے کی کوششوں کی قدر کرتے ہیں۔تاہم چند عناصر اسلامی نظریات اور اسلامی قوتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں حکومت اسکا نوٹس لے۔

وزیرِداخلہ نے کہا کہ دین پاکستان کی طاقت، حرمت اور مان ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت دین کو پاکستان سے الگ نہیں کر سکتی۔ پاکستان اسلامی نظریے پر ہی قائم ہوا تھا اور انشا اللہ اسی نظریے پر قائم و دائم رہے گا۔ تمام صوبوں سے کہا جائے گا کہ شیڈول فورکی لسٹوں کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔ وزیرِداخلہ نے کہا کہ شیڈول فور میں شامل تمام شخصیات پاکستانی ہیں انہیں شناختی کارڈ اور شہریت سے کس طرح محروم کیا جا سکتا ہے؟۔ بیان کے مطابق وزیرِداخلہ نے کہا ہے کہ اگر ایسا ہوا ہے تو اس عمل کو درست کیا جائے اورموقع پر متعلقہ محکموں کو ہدایت کردی ہے کہ آئندہ اس قسم کے فیصلوں سے مکمل اجتناب کیا جائے کی چوہدری نثار نے کہا کہ سیکیورٹی کی بحالی میں دینی قوتوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے انہیں کسی صورت بھی نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی تمام صوبائی حکومتوں سے مل کر دینی حلقوں کے تحفظات دور کئے جائیں گے۔ جب کہ دفاع پاکستان کونسل کی طرف سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ کے اعلی سطح کے وفد ن وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے دو گھنٹے طویل ملاقات کی۔

 مولانا سمیع الحق نے وزیر داخلہ کو ملک میں دینی جماعتوں، مدارس، آئمہ مساجد و علما ء کو درپیش مسائل اور مشکلات سے تفصیل سے آگاہ کیا اور کہا کہ حکومت کے پیدا کردہ ان حالات نے دینی قوتوں کا پیمانہ صبر لبریز کردیا ہے اور دیگر دانستہ ہر محاذ پر دیوار سے لگانے کی سازش کی جارہی ہے۔ جبکہ دینی حلقوں نے ہمیشہ ملکی دفاع، سلامتی اور استحکام کے لیے مسلسل مثبت کردار ادا کیا ہے مگر اب انہیں سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں امریکی دباو اور بھارت کے مذموم عزائم کے خلاف سب سے پہلے دفاع پاکستان کونسل میدان میں نکلی۔ اور ملک کا دفاع کرنے کا اعلان کیا۔ ایسے حالات میں حکومت کی طرف سے دینی شخصیات کی شہریت منسوخ کرنے، بینک اکاونٹ منجمند کرنے، شناختی کارڈ بلاک کرنے اور ملک سے باہر جانے پر پابندی کے اعلانات اور اقدامات نے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا ہے۔

 وفاقی وزیر داخلہ نے وفد کا خیر مقدم کیا اور تمام مسائل کو غور سے سن کر کہا کہ میں اپنے آپ کو دینی قوتوں کا سپاہی سمجھتا ہوں اور تمام نازک حالات میں ہر فورم پر آپ کے ساتھ کھڑا رہوں گا۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں اور اس ملک کا نظریاتی تشخص ہر حالت میں قائم رکھا جائے۔ وزیر داخلہ نے فوری طور پر فورتھ شیڈول کے تمام افراد کے بلاک شناختی کارڈ بحال کرنے کے احکامات جاری کیئے اور نادرہ کو متنبہ کیا کہ آئندہ بھی فورتھ شیڈول کے کسی بھی فرد کا شناختی کارڈ بلاک نہ کیا جائے۔ اسی طرح ان کی شہریت پر بھی کوئی پابندی نہ لگائی جائے اور نہ ملک سے باہر جانے پر کوئی پابندی ہوگی۔

 انہوں نے کہا کہ میں فوری طور پر چاروں صوبوں کی حکومتوں سے بات کرکے انہیں دینی قوتوں اور کونسل کے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کا کہوں گا۔ تاکہ آپ کے مسائل جلد از جلد باہمی مشاورت سے حل کرائے جاسکیں۔ وفد نے افغان مہاجرین کی واپسی اور ان کو درپیش مشکلات کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا۔ اور کہا کہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے افغانستان کے مہاجرین کی قربانیوں پانی پھیر رہے ہیں۔ اور خام خواہ اپنے دیرینہ دوستوں کو دشمن بنارہے ہیں اس کا سارا فائدہ بھارت کو پہنچے گا۔ اور بھارت اس کوشش میں ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات خراب ہوں۔