(اقتصادی راہ داری (مظفر ربا نی

120

چین نے پہلے اپنی پیداواری صلاحیت کو بڑھایا پھر برامدات کے لیے راستے کی تلاش میں نکلا اس کا مطلب یہ ہے کہ چین نے اپنی پیداواری صلاحیت کو اس قدر فروغ دے لیا ہے کہ اب اس کے پاس اپنے ملک میں اپنی پیداوار کی کھپت کی گنجائش نہیں اسی لیے اس نے ۴۶ سو ارب روپے کی خطیر رقوم سے اقتصادی راہ داری منصوبہ بنایا اور اس کے لیے پاکستان کی جو زمین استعمال ہوگی وہ تو ۴۶ سو کھرب روپے سے بھی زائد ہوگی لیکن اس راہ داری کے پچھتر فی صد فوائد چین کو حاصل ہوں گے۔ اگر پاکستان چاہتا ہے کہ اس کو بھی اس منصوبے سے کما حقہٗ فوائد حاصل ہوں تو اس کو بھی اپنی پیداواری صلاحیت کو بڑھانا ہوگا اور وہی پالیسیاں اپنانی ہوں گی جو چین نے اپنائی ہیں جن کا بنیادی مقصد صرف اور صرف پیداوار میں اضافہ ہو۔ لیکن اگر ہماری پیداواری صلاحیتیں نہیں بڑھائی گئیں تو اپنی ہزاروں کھرب کی زمین چین کو دے دینا کوئی دانش مندانہ فیصلہ نہیں ہوگا۔ اس پر بھی بعض ماہرین کو تحفظات ہیں کہ اس منصوبے میں کتنا قرضہ شامل ہے زمین پاکستان کی اور مقروض بھی پاکستان یہ کسی درجے کی قابلیت ہے کہ زمین بھی دو اور الٹا مقروض بھی بن جاؤ۔ جب تک سرکاری کارخانے قائم نہیں ہوں گے اور ان کی پیداوار بیرون ملک برامد کرنے کے ہم قابل نہیں ہوں گے اس راہ داری منصوبے سے ہم کو کچھ نہیں ملنے والا اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ہمارے حیثیت ایک چوکیدار سے زیادہ نہیں ہوگی اس منصوبے کے پیچھے نواز شریف اور چند بڑے سرمایہ دار جو کئی کئی کاروبار کر رہے ہیں کی اپنے برامدات کو بڑھانے کے لیے کیا جا رہا ہے جس سے ملک کی معیشت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ افراط زر اور کساد بازاری میں اضافہ ہوگا اگر قومی پیداوار میں اضافہ چاہیے تو سرکاری کارخانوں کو از سر نو تعمیر کیا جائے اور ان میں ماہرین بھرتی کیے جائیں اور ان کی پیداواری صلاحیت کو بڑھایا جائے تاکہ اس راہ داری کے ثمرات سے بہرہ مند ہوا جا سکے۔ اس کے ساتھ زراعت کے شعبے کو ترقی دینا ہوگی پاکستان کے پاس دنیا کی بہترین زرعی زمین اور نہری نظام موجود ہے اس میں مزید بہتری کے لیے جدید مشینری آلات بیج اور کھاد کا استعمال کرتے ہوئے زرعی پیداوار جن میں چنا، دال، سبزی، چاول، گیہوں کی پیداور کو زیادہ سے زیادہ
بڑھانا ہوگا تاکہ پاکستان اپنا مال بیرونی منڈیوں میں کم سے کم لاگت پر پہنچا سکے۔ ایسی ہی پیداواری صلاحیت فوجی ساز و سامان کی تیاری اور سامان حرب کی پیداوار میں اضافہ کرنا ناگزیر ہے تاکہ بین الاقوامی منڈی میں اس کی باسانی ترسیل ہوسکے ان اقدامات سے قوی امید ہے کہ پاکستان کو بھی اس راہ داری کا کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن اگر ایسا نہیں کیا گیا اور صرف پرائیویٹ کاروباری افراد کے کارخانوں کا مال ہی برامد ہوتا رہا تو اس سے قومی خزانے کو سوائے نقصان کے کچھ اور حاصل نہیں ہوگا جس کا قوی امکان موجود ہے نواز شریف اینڈ کمپنی کو اس راہ داری کی از حد ضروت ہے کہ ان کی دسیوں شوگر ملیں، لوہا تیار کرنے والی کمپنیاں اس کے علاوہ کئی ایک کارخانے جن کی پیداوار کو ملک میں کھپانے کے بجائے ڈالرز کی لالچ میں بیرون ملک پہنچایا جائے گا ۔ قوم کے خطیر سرمائے کو خرچ کرکے شریف اینڈ کمپنی کے کاروبار کو فروغ دیا جائے گا۔ لیکن قوم کو اس سے کسی صورت فائدہ پہنچتا نظر نہیں آرہا۔ یہی کچھ میٹرو بس اورینج ٹرین اور دیگر منصوبوں کا ہے سرمایہ قوم کا فائدہ نواز شریف کا بس اسی فارمولے کے گرد نواز شریف کی ساری سیاست گھوم رہی ہے جب کہ سیاست ایک سنجیدہ اور قوم کی رہنمائی کا نام ہے جس کی ابجد سے بھی نواز شریف واقف نہیں ہیں۔