(ٹرمپ کی کامیابی ( آخری حصہ

144

سوال یہ تھا کہ ووٹروں کے بڑے بڑے گروپوں کی مخالفت کے باجود ریپبلکن آخر کیسے ٹرمپ کی قیادت میں میدان مار گئے۔ ایشیائی تارکین وطن، میکسیکو سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن، مسلمان اور خواتین کی ایک بڑی تعداد۔ یہ سب نہ صرف ٹرمپ مخالف تھے بلکہ انہوں نے اس کا برملا اظہار بھی کیا تھا۔ تو پھر ایسا کیا چمتکار ہوا کہ ٹرمپ کو الیکٹرول کالج سے تین سو سے زائد ووٹ ملنے کی توقع ہے۔ اگر سب کچھ ایسا ہی تھا تو کیا واقعی امریکی انتخابات میں دھاندلی ہوئی؟ اور اگر دھاندلی ہوئی تو کس طرح ہوئی۔
امریکی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کوئی نئے نہیں ہیں۔ اس پر بی بی سی، نیوز ویک، انڈیپینڈنٹ، گارجین، مرر، نیو یارک ٹائمز، سی این این سمیت پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا پر بے شمار رپورٹیں موجود ہیں۔ 2004 میں جان کیری اوہائیو میں انتخابی دھاندلی کے کا الزام لیے ایک طویل عرصے تک عدالت میں ڈٹے رہے۔ تاہم بعد میں انہوں نے اپنی شکست تسلیم کرلی۔ 2000 میں بھی فلوریڈا میں بھی دھاندلی کا الزام لیے الگور عدالتی جنگ لڑتے رہے۔ بعد میں انہوں نے بھی شکست تسلیم کرلی تھی۔ جب بش جونیر انتخاب جیتے، اس وقت بھی انتخاب کی شفافیت پر سوال اٹھا تھا کیوں کہ ووٹنگ مشینیں سپلائی کرنے والی فرم کے مالکان میں جارج ڈبلیو بش کے بھائی جیب بش بھی شامل تھے۔ تاہم اس دفع اس کی سنگینی یوں سوا تھی کہ ایک صدارتی امیدوار نے پہلی مرتبہ انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا تھا۔
ٹرمپ نے الزام لگایا تھا کہ امریکی انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے انہیں ہرانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکا کی 16 ریاستوں میں پولنگ کے لیے آنے والی الیکٹرونک ووٹنگ مشینیں برطانیہ سے درامد کی گئی ہیں۔ جس کمپنی سے یہ درامد کی گئی ہیں اس کے مالکان میں جارج سوروس شامل ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ جارج سوروس ہیلری کی حمایت کررہے ہیں اس لیے ریپبلکن کو پڑنے والا ووٹ بھی ڈیموکریٹ کو جائے گا۔
پولنگ والے دن ایسی خبریں مسلسل چلتی رہیں کہ کئی مقامات پر چھ چھ گھنٹے تک ووٹنگ مشینیں خراب رہیں یا ووٹ کسی کو دیا اور ظاہر کسی اور کے نام پر ہوئے۔ اسے حکام نے مقامی خرابیاں قرار دیا۔ وکی لیکس کہتا ہے کہ امریکی انتخابات میں دھاندلی کا آغاز پولنگ والے دن سے بہت پہلے ٹیکنیکل طریقے سے کیا گیا تھا۔ وکی لیکس کے مطابق دھاندلی اس وقت کی گئی جب ڈیموکریٹس کے کنونشن میں پارٹی کے صدارتی امیدوار کا انتخاب کیا جانا تھا۔ معروف برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ کے دس نومبر کے شمارے میں اینڈریو گریفن وکی لیکس کے حوالے سے لکھتا ہے کہ ہیلری کے حریف برنی سینڈرز کو ہیلری پر برتری حاصل تھی مگر ڈیموکریٹس کے بڑے چاہتے تھے کہ ہیلری ہی کو صدارتی امیدوار بنایا جائے۔ وکی لیکس کے مطابق ہیلری ہر لحاظ سے ایک کمزور امیدوار تھی جس کا سراسر فائدہ ٹرمپ کو پہنچا۔ وکی لیکس کی جاری کردہ لیک ای میلز میں اس سازش کا انکشاف ہوا۔ ان ای میلوں کے لیک ہونے کے بعد ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی اور اس کی سربراہ ڈیبی وازر مین نے اس امر کو یقینی بنایا کہ برنی کو صدارتی امیدوار کے طور پر منتخب ہی نہ ہونے دیا جائے۔ ان الزامات کے بعد جولائی میں ڈیبی کو اپنے منصب سے دست بردار ہونا پڑا۔ وکی لیکس کی ویب سائٹ پر ان ای میلوں کے منظر عام پر آنے کے بعد یہ ثابت ہوگیا تھا ڈیبی وازر مین شلز اور اعلیٰ مناصب پر بیٹھے ان کے ساتھیوں کی کوشش ہے کہ ہیلری کلنٹن کو ہی ڈیموکریٹس کا صدارتی نمائندہ منتخب کیا جائے۔ برنی سینڈرز ہر لحاظ سے ہیلری سے زیادہ مضبوط امیدوار تھے۔ سب سے اہم بات یہ کہ ہیلری کے ساتھ ای میلز کا اسکینڈل تھا جب کہ برنی کے پاس اس طرح کا کوئی بوجھ نہیں تھا۔ وکی لیکس کے مطابق یہ انجینئرڈ دھاندلی تھی۔
ہیلری ہوں یا ٹرمپ۔ دونوں ہی شخصیات ہر وہ کام کرنے پر راضی تھیں جو عالمگیریت کے سازش کار چاہتے ہیں۔ تو پھر ہیلری کیوں نہیں اور ٹرمپ کیوں؟ ٹرمپ نے تو وہ کچھ کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو ہیلری پہلے سے کرتی رہی ہیں۔ تو پھر ٹرمپ ہی کیوں؟ اس کا جواب انتخابات کے بعد امریکا میں جاری ہنگاموں کو دیکھ کر ملتا ہے جو ہر دن مزید پرتشدد بھی ہوتے جارہے ہیں اور پھیلتے بھی جارہے ہیں۔
امریکا میں سول مارشل لا کا بتدریج نفاذ دیوانے کی بڑ نہیں ہے۔ سیکوریٹی کے نام پر روز انفرادی حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔ عوامی مقامات خاص طور سے اسکولوں میں فائرنگ جیسا روز ایک نیا اسٹنٹ پیش کیا جاتا ہے جس کے بعد ریاست مزید انفرادی حق پر حاوی آجاتی ہے۔ اس وقت امریکا میں عوامی سطح پر خوف زدگی کی جو سطح ہے وہ نائن الیون کے فوری بعد بھی نہیں تھی۔ مسلمان خواتین اسکارف پہن کر باہر آنے سے خوف زدہ ہیں کہ ان پر حملے کیے جائیں گے۔ اس وقت امریکا نسلی تعصب کا شدید شکار ہو کر کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کے لیے فرد پر ریاست کا قبضہ ضروری ہے۔ اگر ہیلری امریکا کی صدر منتخب کرلی جاتیں تو تھیٹر پر ہنگاموں والا یہ منظر پیش کرنا ممکن نہ ہوتا۔
کسی کالے امریکی پر پولیس تشدد و قتل اور اس کے بعد ہنگامے امریکا میں نئی بات نہیں رہے۔ ڈکوٹا میں تیل کی لائن ڈالنے کے مسئلے پر اصل امریکیوں کی مزاحمت جاری ہے جس میں ان امریکیوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں اور ان کی گرفتاریاں عام سی بات ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت بھی امریکا میں کوئی نئی بات نہیں رہی۔ اب اگر اس کے ساتھ ہنگامے پھیل کر واشنگٹن، کیلیفورنیا اور نیویارک جیسی ریاستوں تک پہنچ جاتے ہیں تو پھر ہنگامی حالت نافذ کرنا آسان ہوگا۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکا معاشی ایٹم بم کا شکار ہوچکا ہے۔ اس کی نصف کے قریب ریاستوں کی بلدیات دیوالیہ کا سرٹیفکٹ لے چکی ہیں۔ بقیہ نصف اس لیے نہیں لے سکیں کہ ان کی ریاستوں کے قانون میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ امریکا پر قرضوں کی مالیت اس کی مجموعی قومی پیداوار کو کب کا پار کرچکی ہے۔ ایک عام امریکی اس کی وجوہات سوچنے پر مجبور ہورہا ہے۔ اس عام امریکی شہری کو ایشوز سے ہٹا کر نان ایشوز کی سیاست میں مصروف کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ اس کے بعد کوئی نہیں دریافت کرے گا کہ عراق پر حملہ کیوں کیا گیا اور اس کے کیا نتائج نکلے۔ افغانستان کا کیا قصور تھا جو اس پر کارپٹ بمباری کی گئی جس کے نتیجے میں امریکی معیشت ہی کارپٹ بمباری کا شکار ہوگئی۔ اور اب یمن و شام میں کی گئی مہم جوئی کے کیا نتائج برامد ہوئے۔ لیبیا میں کیوں کودے تھے۔ ان تمام مہم جوئیوں کے نتائج امریکی معیشت پر تو واضح ہیں اور امریکی انتہائی خود غرضی سے یہ نہیں پوچھ رہے کہ دنیا کو کیوں آگ و خون میں غلطاں کردیا گیا ہے مگر یہ ضرور پوچھ رہے ہیں کہ ان کی معیشت کیوں تباہی کا شکار ہے۔ اس صورت حال کا واحد علاج ہی یہ ہے کہ امریکی شہریوں کو جان کے خوف میں مبتلا کردیا جائے۔ امریکا میں فرد کے حقوق پر ریاست کے قبضے کی کہانی آئندہ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔