ٹرمپ : امریکی گورباچوف

146

اہم ترین سوال یہ ہے کیا امریکا میں جاری رنگ دار تحریک کا صرف یہی مقصد ہے کہ ٹرمپ کو کسی طرح کرسی سے اتار کر ہیلری کو متمکن کردیا جائے۔ تحریک کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس تحریک کے اسی طرح کثیر الجہت مقاصد ہیں جس طرح بہار عرب کے عنوان کے تحت جاری رنگ دار تحاریک کے تھے۔ بہار عرب کے تحت جتنی بھی رنگ دار تحاریک چلائی گئیں، ان کا مقصد حکومت کی تبدیلی سے زیادہ جغرافیہ کی تبدیلی رہا۔ خون خرابہ، جنگ و جدل، ایک قوم کو عملاً کئی کئی ٹکڑوں میں بانٹ دینا اس کے علاوہ تھا۔ رنگ دار تحاریک کے اس پس منظر کے بعد امریکا میں جاری Purple Movement کو دیکھنے کے بعد ذہن میں جو پہلا سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ٹرمپ امریکی گورباچوف ثابت ہوں گے؟
امریکا کا پورا نام ریاست ہائے متحدہ امریکا ہے۔ پچاس ریاستیں ایک کنفیڈریشن کے تحت امریکا کی تشکیل کرتی ہیں۔ اگر ان پچاس ریاستوں میں سے پانچ ریاستیں بھی امریکا سے علیحدگی اختیار کرلیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ امریکا کی ٹوٹ پھوٹ شروع ہوگئی اور یہ تسبیح کا دانہ ٹوٹنے کے مترادف ہوگا۔ امریکی آئین میں تو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ ریاستیں جب چاہیں کنفیڈریشن سے علیحدگی اختیار کرسکتی ہیں اور اس کے لیے ایک طریقہ کار بھی دیا گیا ہے مگر عملاً یہ ناممکن ہے۔ جب بھی کسی ریاست نے کنفیڈریشن سے علیحدگی کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی، اسے بزور قوت دبا دیا گیا۔ ریاستوں کی امریکا سے علیحدگی کی کوششوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ 1860-61 میں سب سے بڑی بغاوت ریکارڈ پر ہے جب جنوب کی گیارہ ریاستوں نے امریکی کنفیڈریشن سے علیحدگی اختیار کرلی تھی تاہم فوج کشی کرکے ان ریاستوں کو قرار واقعی سزادے دی گئی۔ ماضی قریب میں اس کی کوشش 2012 میں بارک اوباما کے دوسرے دور صدارت میں ہوئی۔ امریکا میں اگر کسی آن لائن پٹیشن پر 25ہزار دستخط ہوجائیں تو وائٹ ہاؤس اس کا جواب دینے کا پابند ہوتا ہے۔ 2013 میں وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے باقاعدہ ایسی پٹیشنوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکی آئین کی رو سے علیحدگی غیر قانونی ہے۔ اس وقت بھی امریکا میں کنفیڈریشن سے کسی ریاست کی علیحدگی کا مطلب سول وار ہی ہے۔
جن امریکی ریاستوں نے ریاست ہائے متحدہ امریکا سے علیحدگی کی پٹیشن فائل کی ہیں ان میں سب سے زیادہ جان دار تحریک کیلی فورنیا کی ہے۔ کیلی فورنیا کی آبادی پولینڈ سے زیادہ ہے جب کہ اس کی معیشت فرانس سے زیادہ مضبوط ہے۔ دیگر ریاستوں میں الاباما، الاسکا، ایریزونا، آرکنساس، کولوریڈو، ڈلاویر، فلوریڈا، جارجیا، ایڈاہو، الی نوائس، انڈیانا، کنساس، کنٹکی، لوئزیانا، مشی گن، منی سوٹا، مسی سیپی، میزوری، مونتانا، نبراسکا، نیو ہمپ شائر، نیو جرسی، نیو میکسیکو، نیو یارک، نوادا، شمالی کیرولینا، شمالی ڈکوٹا، اوہائیو، اوکلا ہاما، اوریگون، پین سلوانیا، رہوڈ آئی لینڈ، جنوبی کیرولینا، جنوبی ڈکوٹا، ٹینی سی، ٹیکساس، اوٹاہ، ورجینیا، مغربی ورجینیا، وسکونسن اور وائی اومنگ شامل ہیں۔
ممتاز برطانوی اخبار انڈیپنڈینٹ کے مطابق کینیڈا نے امریکا کی چار مغربی ساحلی ریاستوں کیلی فورنیا، اوریگون، واشنگٹن اور نوادا کو دعوت دی ہے کہ وہ ریاست ہائے متحدہ امریکا سے علیحدگی اختیار کرکے کینیڈا سے وابستگی اختیا رکرلیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا مطلب کینیڈا کی سرحدوں کی توسیع ہے جو انٹارکٹیکا سے لے کر میکسیکو تک ہوگی۔
امریکا میں سول وار اور جغرافیائی تبدیلی آخر کیوں؟ اگر ہم ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں کا جائزہ لیں تو اس سوال کا جواب ڈھونڈنا آسان ہوجاتا ہے۔ ایک عالمگیر حکومت کا مطلب ہے کہ آزاد ممالک کا دور ختم اور پوری دنیا ایک حکومت کے تحت جب کہ پوری دنیا میں اس کے چیلوں یا ایجنٹوں کی حکومت۔ نیو ورلڈ آرڈر کے بلیو پرنٹ کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ اس کے لیے دنیا کی آبادی میں کمی لائی جائے گی اور پوری دنیا کو پہلے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے گا اور پھر اس کے بعد اسے دس حصوں میں ازسرنو تقسیم کیا جائے گا جسے انتظامی یونٹ کہا جائے گا۔ اس منصوبے کو دیکھنے کے بعد امریکا میں ٹرمپ کی پراسرار کامیابی، ٹرمپ کی کامیابی کے ساتھ ہی فسادات اور پھر فسادات کے ساتھ ہی رنگ دار تحریک کا آغاز، سب کچھ سمجھ میں آنے لگتا ہے۔ گو کہ امریکا میں ٹوٹ پھوٹ دنوں کی بات نہیں ہے۔ تجزیہ کار اس قسم کی پہلی ٹوٹ پھوٹ 2019 سے قبل نہیں دیکھ رہے مگر امریکا میں سول وار کا آغاز بھی بہت زیادہ دور نہیں ہے۔
اس موقع پر ایک وضاحت۔ اس طرح کی کوئی بھی تحریک اچانک یا ازخود نہیں شروع ہوجاتی؟ اس کے لیے خاصا عرصہ قبل تیاری کرنا پڑتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد ہونے والے ہنگامے اچانک نہیں شروع ہوگئے اور اس کے بعد تحریک کی بڑھتی ہوئی قوت رفتار بھی اچانک نہیں ہے۔ ان ہنگاموں کے ساتھ ساتھ نفرت پر مبنی حملے بھی اچانک نہیں ہیں۔ یہ سب باقاعدہ منصوبے کے تحت ہیں۔ نفرت پر مبنی حملوں کا واضح مطلب قطبین کی جانب واضح تقسیم ہے۔ اس وقت امریکا میں کالے گورے کی تقسیم پہلے سے زیادہ واضح اور زیادہ نفرت پر مبنی ہے۔ ٹرمپ کی کامیابی کے ساتھ ہی مسلم آبادی پر نفرت پر مبنی حملوں پر اضافہ ہوگیا ہے۔ آبادی کی قطبین میں تقسیم ہی سول وار کی جانب لے جاتی ہے۔ تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس وقت امریکا میں جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ نہ تو کسی واقعے کا فوری اور ازخود ردعمل ہے اور نہ ہی خود کار ہے بلکہ جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ باقاعدہ منصوبے کے تحت ہورہا ہے۔
اس وضاحت کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ کو امریکی تاریخ میں وہی حیثیت حاصل ہوگی جو روسی تاریخ میں گورباچوف کو حاصل ہے۔ گورباچوف کے بارے میں ایک جملہ۔ اکثر لوگوں کو شاید اس کا علم نہیں ہوگا کہ گورباچوف روس میں اپنا مشن کامیابی سے سرانجام دینے کے بعد اب امریکا میں رہائش پزیر ہیں اور ایک این جی او چلاکر گزر بسر کرتے ہیں۔ نہ تو روس میں کسی نے پوچھا کہ گورباچوف کہاں گئے اور نہ ہی امریکی کبھی دریافت کرتے ہیں کہ گورباچوف امریکا میں کیا کررہے ہیں۔
اب یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر اس وقت امریکا کو سول وار میں دھکیلنے اور امریکا کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ کیوں؟ اس اہم ترین سوال پر گفتگو آئندہ کالم میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازش سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔