کراچی: پراسرار بیماری کی”چکن گونیا” کے نام سے تشخیص، شہر بھر میں پھیلنے کا خد شہ

142

کراچی (رپورٹ: قاضی عمران احمد) ملیر کے علاقے سے پھیلنے والا نامعلوم بخار بالآخر تشخیص کر لیا گیا، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کو بھیجے گئے 5نمونوں میں سے 3میں چیکن گونیا کے وائرس کی موجودگی کی مثبت رپورٹ دے دی گئی ہے، متاثرہ افراد میں 2 بچے بھی شامل ہیں، ملیر کے علاقے میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے متاثر ہونے کی ذمے دار سندھ گورنمنٹ اسپتال سعود آباد کی انتظامیہ بھی ہے، فوری طور پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ شہر کے دیگر علاقوں کو متاثر ہونے سے روکا جا سکے۔ یہ بات ڈینگی کنٹرول پروگرام کے منیجر ڈاکٹر مسعود سولنگی نے ’’جسارت‘‘سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس حوالے سے انتہائی محتاط رویہ رکھا ہوا تھا کیوں کہ پاکستان میں چیکن گونیاکا وائرس اس سے قبل کبھی نہیں پایا گیا تھا، اب جب کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ نے تصدیق کر دی ہے، ہم نے 5 افراد کے نمونے این آئی ایچ کو بھیجے تھے جن میں سے 3 افراد 45 سالہ اخلاق، 11 سالہ عمر اور 9 سالہ زوہیب میں چیکن گونیاوائرس کی تصدیق ہو ئی ہے،اب صرف محکمہ صحت ہی نہیں بلکہ تمام بلدیاتی اداروں کی جانب سے فوری طور پر ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ وائرس جان لیوا نہیں ہے اور نہ ہی یہ وبائی مرض ہے، یہ وائرس 10 سے 12 دن تک رہتا ہے اور اس کے بعد مریض صحت یابی کی طرف جانا شروع ہو جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں کو مچھر کے کاٹنے سے منتقل ہوتا ہے جو زیادہ تر دن کے اوقات میں کاٹتے ہیں، چیکن گونیا شاذ و نادرہی ولادت کے وقت کے قریب ماں سے نوزائیدہ بچے کو منتقل ہوتا ہے، یہ اتفاقی رابطہ، جیسے وائرس والے شخص کو چھونے یا ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے نہیں پھیلتا۔ڈاکٹر مسعود سولنگی نے مزید بتایا کہ اس بخار کی علامات عموماً کسی متاثرہ مچھر کے کاٹنے سے اوسطاً 3 تا 7 روز کے بعد ظاہر ہوتی ہے اور یہ علامات ہر فرد میں مختلف ہوتی ہیں، متاثرہ فرد کو اچانک تیز بخار (102 تک) چڑھنا،جوڑوں میں شدید درد،خاص طور پر بازوؤں اور ٹانگوں میں، سر درد، عضلات میں درد، پیٹھ میں درد، دورے پڑنا (50 فی صد معاملات میں) ایسا ہوتا ہے۔ بیشتر مریضوں کو چند روز یا ہفتوں کے بعد بہتر محسوس ہوتا ہے، کچھ لوگوں میں طویل مدتی جوڑوں کا درد فروغ پا سکتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ جب بخار اور جوڑوں کے درد کے مریضوں نے اتنی بڑی تعداد میں سندھ گورنمنٹ اسپتال سعود آباد رجوع کرنا شروع کیا تھا تو یہ اسپتال انتظامیہ کی ذمے داری تھی کہ وہ فوری طور پر محکمہ صحت کو مطلع کرتی اور ان مریضوں کے ٹیسٹ کرواتی، اگر بروقت ایسا ہو جاتا تو اتنی بڑی تعداد میں لوگ متاثر نہ ہوتے اور اب سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ یہ وائرس شہر کے دیگر علاقوں میں بھی پھیلنا شروع ہو جائے گا۔محکمہ صحت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات یقیناً مریضوں کو صحت یابی کی طرف لے کر جائیں گے لیکن سب سے اہم ترین ذمے داری بلدیاتی اداروں کی ہے کہ وہ فوری طور پورے شہر میں لگے کچرے کے ڈھیروں کا خاتمہ کریں، ابلتے گٹروں کی صفائی کریں اور پینے کے لیے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنائیں اور مستقل بنیادوں پر جراثیم کش اسپرے کرائیں تاکہ اس وائرس کی افزائش کو روکا جا سکے اور لوگوں کو اس وائرس سے محفوظ رکھا جا سکے۔