حلب۔ برسرپیکار کون ہیں؟  

192

جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا تھا کہ شام میں برسرپیکار گروپوں کو ہم بنیادی طور پر چار گروپوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ان میں سے پہلا گروپ ہے حکومت اور اس کے اتحادی۔ بقیہ گروپوں کو آپ مزاحمت کار کہیے، باغی کہیے یا جنگجو۔ ان میں سے دو گروپوں کو ہم جان چکے ہیں۔ تیسرا گروپ ہے داعش اور اس کے اتحادی۔ دیکھنے میں یہ مختصر سا گروپ ہے یعنی داعش کا ملٹری گروپ اور خالد بن ولید آرمی۔ شہدائے یرموک بریگیڈ، اسلامک مثنٰی موومنٹ اور جیش الجہاد گروپ خالد بن ولید آرمی ہی کے ذیلی گروپ ہیں۔ اس کے علاوہ جماعت بیت المقدس الاسلامیہ بھی داعش کے ذیلی گروپ کے طور پر شام میں برسرپیکا رہے۔

دیکھنے میں دیگر گروپوں کے مقابلے میں داعش ایک چھوٹا سا گروپ لگتا ہے مگر یہ حیرت انگیز خصوصیات کا مالک ہے۔ یہ ملک شام کے 35 فی صد حصے پر قابض ہے۔ گو کہ اس میں زیادہ تر ویران علاقے شامل ہیں پھر بھی اس کے پاس بڑا رقبہ ہے۔ حکومت سمیت حزب اختلاف کے دیگر دو گروپ بھی اس کے خلاف ہیں اور داعش کا خاتمہ ان سب کا مقصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا حکومت اور اس کے اتحادی روس، چین و ایران اس گروپ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ حزب مخالف کے دیگر دونوں گروپ داعش کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا، ناٹو ممالک، عرب ممالک یہ سارے کے سارے بھی داعش کے خلاف ہیں۔ عملاً صورت حال دیکھیں تو صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ داعش کا کوئی بھی بال بیکا نہیں کرسکا۔ داعش کو نہ تو اسلحہ و بارود کی کوئی کمی ہے اور نہ ہی مواصلاتی رابطے میں کسی دقت کا سامنا ہے۔ مواصلاتی سیارے کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات بھی اس کی دسترس میں ہیں۔ اسے فنڈز کی بھی کوئی قلت نہیں ہے۔ پابندی کے باوجود دنیا کے سارے بینک اس کی خدمت کرتے ہیں۔ گاڑیاں بنانے والے جہاز بھر بھر کر اسے ہر قسم کی گاڑیاں فراہم کررہے ہیں۔ ٹینکوں، میزائلوں سے بھرے جہاز ہر وقت اس کی دسترس میں ہیں۔ جنگ زدہ ملک میں ہونے کے باوجود غذا، وردیاں اور جوتوں جیسی اشیاء کی بھی کوئی قلت نہیں ہے۔ بھرپور فضائی حملوں کے باوجود اس کا کوئی قابل ذکر جانی نقصان نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملات کہنے میں کچھ اور ہیں اور کرنے میں کچھ اور۔ داعش کی ایک اور خصوصیت بھی ہے وہ یہ ہے کہ اس کا کوئی سیاسی چہرہ نہیں ہے۔
اب سرکاری فوج کے معاملات دیکھتے ہیں۔ سرکاری فوج اور اس کے تمام شعبوں کے علاوہ اس کے اتحادیوں میں شامل ہیں بعثت بریگیڈ، الصاعقہ، سیرین سوشل نیشنلسٹ پارٹی، امل موومنٹ، عرب نیشنلسٹ گارڈ، شامی مزاحمت، جیش المواحدین، ابو ابراہیم فورسز، سوتورو، PFLP جیش الشعبی، لوا القدس، فتح الانتفاضہ، پی ایل اے، لوا ابو الفضل العباس، لوا اسداللہ الغالب فی العراق والشام، لوا فاطمیون، لوا زینبیون، پاپولر موبیلائزیشن فورسز، کتائب سید الشہداء، بدر آرگنائزیشن، عصائب اہل الحق، کتائب حزب اللہ، حرکات حزب اللہ النجابہ، پیس کمپنیز، حوثی، جیش الوفا، لوا دعا الفقر، دار ساحل، دار آرین، الحسن، سرایا المختار، دار الوطن، قبیلہ البیری، قبائل طے ملیشیا، قبائل ال جحیش ملیشیا، قبائل الشیطاط ملیشیا، سیرین نیشنل ریززٹینس، شہداء کفر صغیر بریگیڈ، سلاوانک کورز اور حزب اللہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایران کی سرکاری افواج جس میں پاسداران انقلاب، صابرین یونٹ اور دیگر یونٹوں کے ساتھ ایرانی فضائیہ بھی شامل ہے، سرکاری افواج کی مدد کے لیے شام کی سرزمین پر موجود ہیں۔ روس بھی باقاعدہ طور پر اس جنگ میں شامل ہے جس میں اس کی فضائیہ اور بحریہ کے علاوہ مواصلاتی مدد بھی شامل ہے۔ جن ممالک سے شام براہ راست اسلحہ و دیگر آلات حاصل کر رہا ہے ان میں روس، ایران، شمالی کوریا، عراق، مصر، بیلارس اور چین شامل ہیں۔
اب ذرا اس صورت حال کا دوبارہ سے جائزہ لیتے ہیں۔ شام میں 2011 تک زندگی معمول پر تھی۔ 2011 میں حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے جسے بہار عرب کا تسلسل قرار دیا گیا۔ اس کے بعد ان مظاہروں میں تیزی کے ساتھ تشدد کا عنصر داخل ہوا اور اب تشدد ہی غالب عنصر رہ گیا ہے۔ یہ تو ہم دیکھ ہی چکے ہیں کہ شام میں سیکڑوں چھوٹے چھوٹے گروپ ہیں جو حکومت کے علاوہ تین بینروں تلے لڑ رہے ہیں۔ ان میں سے ایک گروپ عام جنگجوؤں پر مشتمل ہے جو سنی العقیدہ ہیں اور پوری دنیا سے جمع ہوئے ہیں۔ یہ لوگ ایک شیعہ حکومت سے نجات کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ان کی حمایت و مالی امداد امریکا اور اس کے اتحادی بھی کرتے ہیں اور عرب ممالک بھی۔

دوسرا گروپ خاص کردوں پر مشتمل ہے۔ اس گروپ میں شیعہ وسنی کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ یہ صرف کرد عصبیت کے حامل ہیں۔ ان کی حمایت بھی امریکا اور اس کے اتحادی کرتے ہیں۔ تیسرا گروپ صرف اور صرف داعش کی ذیلی تنظیموں پر مشتمل ہے۔ انہیں کہاں سے فنڈنگ ہوتی ہے؟ یہ امر راز نہیں رہا ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل اور بین الاقوامی صہیونی تنظیمیں داعش کی سرپرست و مربی بھی ہیں اور دامے، درمے مددگار بھی۔

سرکاری فوج اور اس کی اتحادی قوتیں شیعہ عناصر پر مشتمل ہیں۔ ایران کے ساتھ ساتھ لبنان کی شیعہ جنگجو تنظیمیں بھی میدان میں موجود ہیں۔ روس اور چین بھی سرکاری فوج کے ساتھ ہیں۔ دیکھنے میں یہ آسان سی کیمسٹری ہے کہ شیعہ اور سنی پولرائزیشن ہے۔ مگر عملاً دیکھیں تو عجیب پیچیدہ صورت حال ہے۔
حکومت باغیوں کے ساتھ برسرپیکار ہے۔ باغی پہلے گروپ پر مشتمل جنگجوؤں کو قرار دیا جاتا ہے۔ حکومت کردوں کی بھی سرکوبی چاہتی ہے جو دوسرے گروپ پر مشتمل ہے۔ حکومت داعش کا بھی قلع قمع کرنا چاہتی ہے۔ اس طرح سرکاری فوج اور اس کے اتحادی بیک وقت تینوں گروپوں سے حالت جنگ میں ہیں۔
باغی یعنی پہلا گروپ حکومت کا تختہ الٹنا چاہتا ہے۔ یہ داعش کا بھی خاتمہ چاہتا ہے۔ اسد حکومت کے خاتمے کے نام پر انہیں عرب ممالک سے فنڈ ملتے ہیں اور داعش کے خاتمے کے نام پر انہیں امریکا اور اتحادیوں سے۔ چوں کہ باغیوں کا سرپرست ترکی اور عراق بھی ہے جو آزاد کرد ریاست نہیں چاہتے۔ اس لیے یہ کردوں سے بھی لڑ رہے ہیں۔
کرد ایک آزاد حکومت چاہتے ہیں۔ اس لیے یہ حکومت سے نجات چاہتے ہیں۔ یہ داعش کے بھی خلاف ہیں۔ داعش کے نام پر انہیں امریکا اور ان کے اتحادی لامحدود فنڈ فراہم کرتے ہیں۔ چوں کہ یہ کرد عراقی حکومت اور ترکی و ایران کی ناک میں نکیل ڈالنے کا بھی کام کرتے ہیں، اس لیے بھی یہ ترکی، عراق و ایران کے پیارے ہیں اور ان سے فنڈ و ہتھیار حاصل کرتے ہیں۔
داعش ایک ایسا گروپ ہے، دیکھنے میں جس کے سب ہی مخالف ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنے فنڈ اور ہر قسم کی اعانت انہیں حاصل ہے، کسی اور گروپ کو نہیں۔ یہاں تک کہ ان کے لیے شام سے متصل اسرائیلی علاقے میں ہسپتال بھی مختص ہیں جہاں پر انہیں فوری اور جدید طبی سہولتیں حاصل ہیں۔ یہ بھی بقیہ تینوں گروپوں سے برسرپیکار ہیں۔ اسد حکومت کا بھی خاتمہ چاہتے ہیں۔ کردوں سے بھی لڑتے ہیں اور باغیوں سے بھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ محض شیعہ و سنی کی جنگ نہیں ہے۔ پہلے گروپ میں القاعدہ بھی شامل ہے جو داعش کے ساتھ بھی لڑ رہی ہے۔ باغیوں اور داعش کی آپس کی جنگ کا مطلب ہے کہ سنی سنیوں سے لڑ رہے ہیں۔ کردوں کی حکومت سے جنگ کا مطلب ہے کہ شیعہ شیعہ سے لڑ رہے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال ان حکومتوں بھی ہے جو ان گروپوں کی مربی و سرپرست ہیں۔
آخر عالمی سازش کاروں کا منتہا و مقصود کیا ہے، اس پر گفتگو آئندہ کالم میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔