حلب۔ برسرپیکار کون ہیں؟

201

شام میں جاری پانچ سالہ خانہ جنگی میں اب تک تین لاکھ سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں۔ اس سے کئی گنا زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ شام کی آدھی سے زیادہ آبادی اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوچکی ہے۔ اس خانہ جنگی میں شریک گروپ ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور ایک دوسرے کا خاتمہ بھی چاہتے ہیں مگر جہاں وہ مناسب سمجھتے ہیں تو ایک دوسرے کے اتحادی بھی ہیں۔ مثال کے طور پر داعش کے خاتمے کے نام پر اسد حکومت، کرد اور باغی ایک صفحے پر ہیں تو اسد حکومت کے خاتمے کے نام پر داعش، باغی اور کردبھی ایک صفحے پر ہیں۔
داعش امریکی اعلان کردہ اہداف میں اہم ترین ہے مگر اسی داعش کی مدد سے اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں پر اپنا قبضہ مستحکم کیا اور یہاں پر اسرائیلی تیل کمپنیAfecنے تیل و گیس نکالنے کا کام شروع کردیا ہے۔ اس کمپنی کے حصہ داروں میں روتھس شیلڈ، ڈک چینی، روپرٹ مرڈوک، جیمس وولزے کے علاوہ امریکا کے کئی نامی گرامی سیاستدان ہیں۔ داعش کی مہربانی سے یہ علاقہ اسی طرح انتہائی پرامن ہے جیسا کہ روس کے خلاف جدوجہد کے دور میں احمد شاہ مسعود کی مہربانی سے شمالی افغانستان میں امن تھا اور روسی مزے سے ٹہلتے ہوئے روس سے افغانستان آتے تھے اورچہل قدمی کرتے ہوئے بہ حفاظت وطن واپس جاتے تھے۔ اس علاقے میں امن ا مان کی بہترین صورت حال کی بناء پر ایسی کوئی صورت حال نہیں ہے جو تیل و گیس نکالنے والوں کی راہ میں مزاحم ہوسکے۔ کچھ ایسا ہی آپ کو عراق میں بھی ملے گا۔ ہر قسم کی خراب صورت حال کے باوجود اس پائپ لائن کو جو عراقی تیل کو اسرائیل پہنچاتی ہے، کوئی بھی نقصان نہیں پہنچاتا۔ کیا امریکا کے حامی اور کیا امریکا کے مخالف، کیا داعش اور کیا القاعدہ، کیا عراق نواز اور کیا ایران نواز، کیا شیعہ اور کیا سنی، سب ایک بات پر متفق ہیں کہ اس پائپ لائن کو نہیں چھونا اور یوں یہ پائپ لائن ہر قسم کے دھماکوں اور حملوں کے باوجود انتہائی محفوظ ہے۔
امریکا اور ترکی ناٹو کے اہم رکن ممالک ہیں۔عراق پر امریکی حملوں میں ترکی کے کردار سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ مگر یہی امریکا آزاد کردستان کے معاملے پر روز ترکی کے کان مروڑتا ہے۔ ترکی اور امریکا مل کر شام میں اسد حکومت کے خلاف ہر طرح کی فوجی و مالی مدد فراہم کررہے ہیں۔ شام میں ترکی کا وہی کردار ہے جو افغانستان میں پاکستان کا تھا مگر یہی امریکا ترک حکومت کی تمام تر غم و غصے اور احتجاج کے باوجود شام میں کرد باغیوں کی بھرپور مدد کررہا ہے۔ امریکا اور ترکی و عرب ممالک کے خلاف روس بشار الاسد حکومت کی پشت پر ہے اور ترک شہریوں کو شام کی سرحد پر روز نشانہ بناتا ہے۔ مگر اسی روس کا تیل دنیا بھر میں سپلائی کرنے کے لیے ترکی نے اپنی بندرگاہ تک زمینی پائپ لائن کی سہولت مہیا کی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ بھی دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات روز افزوں ہیں۔ امریکا روز داعش کے خلاف روز ایک نئی مہم شروع کرتا ہے۔ داعش کے نام پر ہر طرح کی طالع آزمائی کرتا ہے مگر اس کا قریب ترین حلیف اسرائیل اسی داعش کو ہر طرح کی زمینی و فوجی سہولت فراہم کرتا ہے۔ اسی امریکا کی ایجنسی سی آئی اے پر داعش کی پیدائش و حمایت کا الزام ہے۔ یہ منافقت کا مختصر ترین احوال ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ آخر شام ہی کیوں اس خانہ جنگی کا نشانہ بنایا گیا اور پوری دنیا سے مسلمان کیوں شام میں مرتکز ہیں۔ ایک عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان، لبنان، فلسطین، عرب ممالک، ایران و افغانستان کے شیعہ العقیدہ شام کی حکومت کی طرف سے لڑنے کے لیے شام میں جمع ہیں تو ان ہی ممالک کے سنی العقیدہ نوجوان شیعہ حکومت کے خاتمے کے لیے شام میں موجود ہیں اوراپنے ہی ہم وطنوں کا قتل عام کررہے ہیں۔
احادیث کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ دنیا پر قبضے کی آخری جنگ ملک شام ہی سے شروع ہوگی۔ اس حوالے سے شام کے دو شہروں دابق اور العمق کے نام لیے جاتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ دجال کی فوج اور مسلمانوں کے درمیان آخری جنگ یہیں ہوگی۔ یہیں سے سدنا عیسیٰ ؑ کا ظہور ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ حلب میں پوری دنیا سے مسلمان مرتکز ہیں۔ دابق ترکی سے حلب کے راستے میں سرحد سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔یہ کوئی بڑا شہر نہیں ہے۔ 2004 کی مردم شماری کے مطابق اس قصبے یا گاؤں کی آبادی محض تین ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ ان ہی احادیث کی روشنی میں پوری دنیا سے مسلمانوں کو یہاں پر آخری جنگ لڑنے کی تلقین کی جارہی ہے۔ مگر کیا ایسا ہی ہے ؟ یہ بات بالکل درست ہے کہ احادیث کا منکر کافر ہے مگر کیا ایسا ہی ہے کہ ان احادیث کے پورے ہونے کا وقت آگیا ہے۔ کیا حلب یا دابق میں پہلی مرتبہ فوج کشی ہوئی ہے۔ 1400 عیسوی میں تیمور کی قیادت میں منگولوں نے یہاں پر کشتوں کے پشتے لگادیے تھے۔ شہر کے راستوں پر کھوپڑیوں کے مینار یہاں پر ہونے والی خوں ریزی کی گواہی کے لیے کافی تھے۔ اس مثال کے جواب میں جنگجو کہتے ہیں کہ حدیث میں رومنوں کا ذکر ہے۔ جس کو آج کے دور میں دیکھا جائے تو اس سے مراد صلیبی یا عیسائی حکومتیں ہیں۔ مگر 1124-25 میں صلیبی حملہ آور اس کا محاصرہ کیے رہے اور بالآخرناکام ہوکر واپس لوٹ گئے۔اس لحاظ سے تو احادیث مبارکہ میں پیش کی گئی نشانی پوری ہوگئی یعنی کہ صلیبی حملہ آور بھی ہوئے اور انہیں شکست بھی ہوئی مگر نہ تو حضرت سیدنا عیسیٰ ؑ آئے اور نہ ہی قیامت آئی۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ قیامت کی آمد کے بارے میں کوئی ایک نشانی نہیں بتائی گئی ہے بلکہ یہ نشانیوں کا تسلسل ہے۔ سب سے پہلی نشانی تو یہی ہے کہ دنیا پر شیطان کا غلبہ مکمل ہوجائے گا۔جس کے بعد حضرت مہدی کی قیادت میں شیطان اور اس کی فوج کا مقابلہ کریں گے اور اس پر غلبہ حاصل کریں گے۔ اس کے بعد سیدنا عیسیٰ ؑ تشریف لائیں گے اور دنیا بھر میں ایک اسلامی حکومت قائم ہوگی۔ یہ درست ہے کہ شیطان اس دنیا پر غلبے کی طرف تیزی کے ساتھ پیش قدمی کررہا ہے۔ اس غلبے کی تکمیل اس وقت ہوگی جس وقت اس کا شیطانی منصوبہ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت یا نیو ورلڈ آرڈر کی صورت میں پایہ تکمیل تک پہنچے گا۔ احادیث میںیہ کہیں پر بھی نہیں آیا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی منطقی طور پر اتفاق کرسکتا ہے کہ صلیبیوں سے لڑنے والے ان ہی صلیبیوں سے مدد لیں گے، ان ہی صلیبیوں کے ایجنٹ کے طور پر لڑیں گے اورمسلمان مسلمان ہی کا گلا کاٹے گا۔
عالمی سازش کار شام میں خانہ جنگی سے کیا نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر گفتگو آئندہ کالم میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔