انتہا پسندی کی شکست کے بعد اب اس کی فکری شکست ضروری ہے،ممنون حسین

132
ادارے اپنی حد میں رہ کر کام کریں تو مسا ئل ہی نہ ہوں،صدر ممنون
ادارے اپنی حد میں رہ کر کام کریں تو مسا ئل ہی نہ ہوں،صدر ممنون

صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ میدان جنگ میں انتہا پسندی کی شکست کے بعد اب اس کی فکری شکست ضروری ہے جس کے لیے خصوصی اقدامات نا گزیر ہیں۔ اس سلسلیمیں ریاست کے مختلف ادارے ، سرکای ذمہ داران،ذرائع ابلاغ اور تعلیم کا شعبہ اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ تعلیم کوفروغ دے کر دہشت گردی کے لیے مذہب کے استعمال کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔

وہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں منعقدہ گریجویشن تقریب سے خطاب کررہے تھے ۔ اس موقع پر این ڈی یو کے صدر لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر نے بھی خطاب کیا جبکہ قومی سلامی کو لا حق خطرات اور ان سے نمٹنے کے لیے اہم تجاویز پر مشتمل بریفنگ دی گئی۔ گریجویشن تقریب میں وفاقی برائے منصوبہ بندی احسن اقبال،سینیٹر مشاہد حسین سید ، اراکین پارلیمنٹ ، جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل زبیر محمود حیات اور اعلی سول و فوجی حکام نے شرکت کی۔

 صدر مملکت نے کہا کہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے ایک ایسا نظام تعلیم مرتب کیا جائیجو معاشرے میں طبقاتی تقسیم کا خاتمہ کرے اور معاشرے کی تہذیب و ترقی میں ٹھوس کردار ادا کرنے کے لیے نوجوانوں کی عصری علوم و فنون میں مہارت کا ذریعہ بنے تاکہ عوام کے معیار زندگی کو مزید بلند کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں ہماری دوسری اہم ترین ذمہ داری بے روزگاری کا خاتمہ ہے کیونکہ بے روزگاری ، مایوسی اور نفرتوں کا راستہ ہموار کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے سے معاشرے کو ترقی دی جا سکتی ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری سے روزگار کے مواقع ملیں گیان سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے نوجوان جدید علوم و فنون میں مہارت پیدا کریں۔ اس سلسلے سول و عسکری افسروں کا کردار نہایت اہم ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ معاشرے میں ایسی تبدیلیاں لا نے کی اشد ضرورت ہے جن سے برداشت، ہم آہنگی اور محبت کے جذبات کو فروغ ملے۔

انھوں نے کہا کہ علاقائی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے قومی قیادت دیانت داری سے کام کررہی ہے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ پاکستان کی موجودہ قیادت قومی اور علاقائی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے پوری دیانت داری سے کام کر رہی ہے اوراسے عوامی پذیرائی حاصل ہے۔انھوں نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب اور بدامنی کے خلاف دیگر کارروائیوں کے مثبت نتائج کے لیے تما م ادارو ں کا کردارنہایت اہم ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی اورانتہا پسندی کے خلاف بے پناہ قربانیا ں دی ہیں اور اس پر قابو پایا ہے۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے دوست ممالک پاکستان کے تجربے سے استفادہ کرسکتے ہیں۔صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان کا مستقبل شاندارہے۔انھوں نے کہا کہ حکومت عوام کی سماجی اور معاشی بہتری کے لیے بہت سے اقدامات کر رہی ہے۔انھوں نے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی اور وار کورس سے متعلق ہمارے تحقیقی اداروں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی شناخت مستحکم کی ہے جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اکیسویں صدی میں قومی سلامتی کے امور میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور اب یہ معاملہ دفاع کے ساتھ ساتھ سیاسی، اقتصادی، ماحولیاتی اور سماجی عوامل سے بھی منسلک ہو گیا ہے جن کے سبب نئے امکانات اورنئے چیلنجز مسلسل سامنے آئیں گے۔ ان کا سامنا کرنے کے لیے ہمیں اپنے اندازِ فکر اور اندازِ کار میں تبدیلیاں لانا ہوں گی تاکہ وطن عزیز کے متعلقہ اداروں کو بدلی ہوئی دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔ صدر مملکت نے دوست ممالک سے آئے ہوئے سینیئر افسران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کے ایمبیسڈرزکی حیثیت سے اپنے ملک اورپاکستان کے درمیان نیا رشتہ استوار کریں۔