بلدیاتی اداروں کی نااہلی سے شہری جسمانی و ذہنی اذیت کا شکار کراچی: حادثات کی بھرمار‘ بیماریوں میں اضافہ،قاضی عمران احمد

181

گزشتہ کئی برس سے کراچی میں تعمیرات کے نام پر بلدیاتی اداروں کی جانب سے شہری جسمانی و ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ ٹوٹی ہوئی سڑکیں، جا بہ جا گڑھے، ملبے اور کچرے کے ڈھیر، ابلتے گٹر اور ان سے رستا ہوا گندہ پانی شہر کی شناخت بن چکے ہیں۔ شاید ہی کوئی حصہ ایسا ہو جو ان تمام غلاظتوں سے محفوظ ہو گا۔ صفائی ستھرائی کے فقدان نے شہریوں کو مختلف اقسام کی بیماریوں کا شکار بنا دیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق شہر کراچی کے 10 لاکھ سے زائد باشندے بلدیاتی اداروں کی غفلت، کوتاہی، نا اہلی اور ناقص کارکردگی کے باعث نجی کلینکس اور اسپتالوں کے دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، تعمیراتی کاموں میں تاخیر اور متبادل راستوں کی عدم فراہمی کے باعث حادثات کی شرح خطرناک حد بڑھ چکی ہے۔ مختلف ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق مختلف وجوہ کی بنا پر (جس میں ٹوٹی سڑکیں بھی بنیادی وجہ ہیں) ٹریفک حادثات میں سالانہ 30 ہزار افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ صرف جناح پوسٹ میڈیکل سینٹر کے شعبہ حادثات میں یومیہ 1200 سے 1500 افراد میں سے 150 سے 200 افراد ٹریفک حادثات کا شکار لائے جاتے ہیں اور ان میں سے بھی 90 فی صد افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ یہ تو صرف ایک سرکاری اسپتال کے اعداد و شمار ہیں اگر شہر کے بڑے سرکاری اسپتالوں کے شعبہ حادثات میں لائے جانے افراد کی تعداد بہت ہی محتاط انداز میں لی جائے تو وہ قریباً 500 افراد یومیہ بنتی ہے۔ واضح رہے کہ ان میں چھوٹے سرکاری اور نجی اسپتال اور کلینکس شامل نہیں ہیں۔ بڑی سڑکوں پر جگہ جگہ یوٹرن اور خطرناک موڑ حادثات کی بڑی وجہ ہیں۔ ماہرین کے مطابق35 فی صد ٹریفک حادثات سڑکوں کی غلط ڈیزائننگ کے باعث پیش آتے ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر میں منصوبہ بندی کے فقدان اور گاڑیوں کے ڈرائیورز کی غفلت سے کراچی میں زیادہ تر موٹرسائیکل سوار حادثے کا نشانہ بنتے ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کراچی میں ضرورت سے انتہائی کم بالائی گزرگاہوں کی وجہ سے بھی ٹریفک حادثات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف شاہ راہ فیصل کا جائزہ لیا جائے تو یہ شاہ راہ قریباً سگنل فری ہو چکی ہے اب ضروری ہو گیا ہے کہ اس مرکزی شاہ راہ کے ہر 2 سے 3 کلو میٹر پر بالائی گزرگاہیں تعمیر کر کے پیدل چلنے والوں کو حادثات سے بچایا جائے۔ نرسری پر ایک بالائی گزرگاہ بنائی گئی ہے جب کہ آج بھی شاہ راہ فیصل کو عبور کرنے کے لیے لوگ براہ راست سڑک کا استعمال کر کے حادثوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ اسی طرح مولوی تمیز الدین روڈ سے متصل لالہ زار کے مکین سڑک عبور کرتے وقت حادثات کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے شدید پریشانی کا شکار نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی دن ہی شاید ایسا گزرتا ہو جس دن ٹریفک حادثہ نہ ہوتا ہو، شہری آئے دن حادثات سے پریشان ہیں۔ ایسی جگہوں پر جہاں اسکول کالجز کے طلبہ سڑکیں عبور کرنے کے لیے ٹریفک کی روانی کا شکار ہو جاتے ہیں، وہاں پر بھی لازمی بالائی گزر گاہیں بنائی جانی چاہئیں۔
ٹریفک حادثات کے حوالے سے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کی ڈائریکٹر سیمیں جمالی سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ٹریفک حادثات کی بڑی وجوہ میں سڑک استعمال کرنے میں بے پروائی، غیر محتاط ڈرائیونگ، تیزی رفتاری، سڑکوں کی خستہ حالی، گاڑی میں خرابی، اوور لوڈنگ، ون وے کی خلاف وزری، اوورٹیکنگ، اشارہ توڑنا، غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز، دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال، نوعمری میں بغیر لائسنس کے ڈرائیونگ، بریک کا فیل ہو جانا اور زائد مدت ٹائروں کا استعمال شامل ہیں لیکن ان میں سب سے اہم وجہ سڑک استعمال کرنے والے کا رویہ ہے۔ 80 سے 90 فی صد ٹریفک حادثات غیر محتاط رویے سے رونما ہوتے ہیں، مگر ہم اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کے لیے تیار نہیں، پاکستان ٹریفک حادثات میں ایشیا میں پہلے جب کہ دنیا میں 48 ویں نمبر پر ہے۔ ڈاکٹر سیمیں جمالی نے مزید بتایا کہ جناح اسپتال میں یومیہ 1200 سے 1500 افراد شہر کے مختلف علاقوں سے حادثات کا شکار ہو کر لائے جاتے ہیں جن میں سے 150 سے 200 افراد وہ ہوتے ہیں جو ٹریفک حادثے کا شکار ہوتے ہیں۔ ان حادثات کی بنیادی وجہ غیر ذمے دارانہ رویہ اور سڑکوں کی خستہ حالی ہے، شہر کی 60 فی صد سڑکیں انتہائی زبوں حالی کا شکار ہیں، ایک طرف ان میں جگہ جگہ گڑھے پڑے ہوئے ہیں تو دوسری جانب سیوریج کا گندہ پانی بھرا رہتا ہے، پانی کے باعث اکثر موٹر سائیکل سواروں کو بالخصوص یہ گڑھے نظر نہیں آتے جس کی وجہ وہ حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں، اسی طرح شاہ راہوں پر خود کو ان گڑھوں سے بچاتے ہوئے یا تو سلپ ہو جاتے ہیں یا پھر کسی دوسری گاڑی سے جا ٹکراتے ہیں یا کوئی گاڑی ان سے ٹکرا جاتی ہے۔ ڈاکٹر سیمیں جمالی نے کہا کہ کراچی پاکستان کا سب سے زیادہ ریونیو دینے والا شہر ہے لیکن سب سے بدتر حالات کراچی کے ہیں خاص طور پر بلدیاتی سہولتوں کا بہت زیادہ فقدان ہے، اگر یہاں سب سے پہلے آمد و رفت کے راستے سہل کر دیے جائیں تو ایک طرف حادثات میں قابل ذکر کمی ہوگی تو دوسری جانب معیشت کو بھی فروغ ملے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ترقیاتی کاموں کی بروقت تکمیل ہونی چاہیے اور ترقیاتی کاموں کے دوران متبادل راستے دیے جانے چاہئیں۔ ڈاکٹر سیمیں جمالی نے کہا کہ ہمارے یہاں احساس کا رشتہ قریباً ناپید ہوتا جا رہا ہے، لوگ اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ وہ اب ایمبولینس کو بھی راستہ نہیں دیتے، جس کی وجہ سے مریض کو بروقت اسپتال پہنچا کر طبی امداد فراہم کرنا مشکل ترین بن چکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں میں شعور بیدار کیا جائے اور سڑکوں کی تعمیر مکمل کر کے تہذیب یافتہ ممالک کی طرز پر ایک رو ایمرجنسی گاڑیوں کے لیے مختص جائے جس پر عام ٹریفک کا داخلہ ممنوع ہو اور یہ ایمرجنسی رو صرف ایمبولینسز، فائر بریگیڈز اور وی آئی پی موومنٹ کے لیے ہو تاکہ ایک تو بروقت مریض اسپتال پہنچائے جا سکیں، آتش زدگی کے واقعات میں فائر بریگیڈز کا جائے حادثہ پر پہنچنا ممکن ہو اور عام گاڑیوں کے لیے بھی ٹریفک نہ روکا جائے۔ یہ سب ذمے داری شہری اداروں اور ٹریفک پولیس پر عائد ہوتی ہے۔
کراچی میں روزانہ 12 ہزار میٹرک ٹن کچرا پیداہوتا ہے، جبکہ ٹھکانے صرف 5 ہزار میٹرک ٹن کچرا لگایا جا رہا ہے باقی 7 ہزار میٹرک ٹن کچرا یومیہ کہاں جا رہا ہے؟ کراچی کی میٹرو پولیٹن اور میونسپل کارپوریشنز 12 ہزار یومیہ ذخیرہ ہونے والے کچرے میں سے محض 5 ہزار میٹرک ٹن کچرا ٹھکانے لگا رہی ہے جب کہ باقی ماندہ 7 ہزار میٹرک ٹن کچرا شہر میں ہی موجود رہتا ہے، 7 ہزار میٹرک ٹن کچرا شہر میں موجود ہو وہ بھی گزشتہ 5 سے 7 برس کے دوران تو تخمینہ لاکھوں میٹرک ٹن بنتا ہے اس کے باوجود کہ کئی صفائی مہمات میں ہزاروں میٹرک ٹن کچرا اٹھا بھی لیا گیا ہو گا مگر پھر بھی کثیر تعداد میں کچرا اب بھی شہر میں موجود ہوتا ہے۔ ملیر، لیاری ندیوں کے علاوہ اورنگی کے ساتھ ریلوے ٹریک سے ملحقہ جگہیں کچرے کے پہاڑ کا منظر پیش کرتی ہیں مگر اس کی مقدار بھی 7 ہزار میٹرک ٹن یومیہ کچرا شہر میں موجودگی کو ظاہر کرنے سے قاصر ہے۔ سروے اور ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق 5 ہزار میٹرک ٹن یومیہ کچرا اٹھانے کے بعد باقی ماندہ کچرے میں شہر بھر سے ایک محتاط اندازے کے مطابق قریباً 4 ہزار میٹرک ٹن کچرا، کچرا چننے والے اپنے مطلب کی اشیا نکال کر کباڑیوں کو فروخت کر دیتے ہیں۔ اس میں زیادہ تر کچرا ہیوی مٹیریل جیسے دھاتوں اور شیشے کی اشیا پر مشتمل ہوتا ہے جب کہ حیرت انگیز طور پر پلاسٹک اشیا کو کچرے سے حاصل کر کے ری سائیکل کر کے مختلف پلاسٹک مصنوعات میں استعمال میں لایا جاتا ہے، کاغذی کچرا ہاتھوں ہاتھ ری سائیکل کر لیا جاتا ہے، اس طرح اس سے ملتی جلتی اشیا کچرے سے حاصل کی جاتی ہیں مگر استعمال صنعتوں میں ہوتی ہیں جب کہ بلدیاتی ادارے معقول رقم پر مختلف صنعتوں کو ان کی ضروریات کے مطابق اشیا فراہم کر کے مالی فوائد حاصل کرتے ہیں، اس سلسلے میں ان کا تعاون گاربیج اسٹیشنز تک ہوتا ہے جہاں سے وہ رات گئے تک کچرا چننے کی اجازت دیتے ہیں اور اس دوران مذکورہ عمل سر انجام دیا جاتا ہے، کہیں بھی کچرا چننے والے موجود ہوں تو وہ کچھ ہی دیر میں کچرے سے اپنے مطلب کی اشیا نکال کر کچرے کو ہلکا کر دیتے ہیں اب ایسی صورت میں بھاری کچرے کی شہر میں موجودگی کے خدشات ختم ہو گئے ہیں۔ گیلا کچرا مستقل پڑا رہے تو چند دنوں میں سوکھ کر اپنا آدھا وزن ختم کر دیتا ہے جو یا تو غیر محتاط طریقے سے شہر کے مختلف مقامات پر جلا دیا جاتا ہے یا ملیر و لیاری سمیت دیگر ندی نما جگہوں پر آلائشوں کو دفنانے کی طرز پر بنائی جانے والی خندقیں کھود کھود کر زمین برد کیا جاتا ہے جب کہ ہائی رائز بلڈنگز کی بنیادوں میں بھی ٹنوں کچرا بھرائی کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اس طرح ایک اندازے کے مطابق 6 میٹرک ٹن کچرا یومیہ مختلف مقاصد میں استعمال ہو کر شہر میں کچرے کے بجائے دوسری شکلیں اختیار کر لیتا ہے، باقی ماندہ ایک میٹرک ٹن کچرا شہر میں کچرے کے پہاڑ بناتا ہے جس کی صفائی کے لیے کچھ کچھ عرصے بعد صفائی مہمات کی ضرورت پڑتی ہے۔ 2 کروڑ کی آبادی کے اس شہر میں صرف 22 ہزار سینٹری ورکرز ہیں جو ضروریات سے کہیں کم ہیں جب کہ دستیاب مشینری خستہ حال ہونے کے ساتھ ناکافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صفائی ستھرائی کے کاموں پر مامور عملہ اپنی سہولت کی خاطر ان کچرے کے ڈھیروں میں آگ لگا دیتا ہے جو ایک طرف شہر میں ماحولیاتی آلودگی پھیلا رہا ہے تو یومیہ ہزاروں شہریوں کو انتہائی مہلک اور خطرناک امراض میں بھی مبتلا کر رہا ہے۔ اگر کچرے کو مکمل طور پر اٹھانا ہے تو فوری طور پر شہر صفائی ستھرائی کے عملے کی تعداد میں قریباً 2 گنا اضافہ کرنا ہوگا اور سو ہیوی ڈمپرز، اتنے ہی لوڈرز و دیگر مشینری ضروریات کے مطابق خریدنی ہو گی۔
اس حوالے سے جب پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مرکزی رہنما اور ای این ٹی سرجن ڈاکٹر سید قیصر سجاد سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ جلایا جانے والا کچرا گلے، نرخرے اور پھیپھڑے کے کینسر سمیت دیگر جان لیوا امراض کے پھیلاؤ کا سبب بن رہا ہے۔ ای این ٹی سرجن ڈاکٹر قیصر سجاد نے مزید کہا کہ بلدیاتی اداروں کی ناقص کارکردگی نے شہریوں کی اکثریت کو مختلف امراض میں مبتلا کر دیا ہے، شہر میں جا بہ جا گندگی کے ڈھیر، گلیوں، بازاروں اور شاہ راہوں پر جمع سیوریج کا گندہ اور آلودہ پانی اور کچرے کو مقررہ جگہ پر تلف کرنے کے بجائے اسے جلا دینے کے عمل نے شہریوں کو ناک کی نالی میں سوزش، الرجی، پھیپھڑوں کی نالیوں کی بیماری، دمے، ٹی بی، گلے اور نرخرے کے کینسر اور دیگر جان لیوا امراض میں مبتلا کر دیا ہے اور اس کا سب سے زیادہ شکار بچے ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر قیصر سجاد نے مزید بتایا کہ اکثر علاقوں میں پینے کے پانی کے ساتھ سیوریج کا پانی شامل ہو کر شہریوں میں ہیپا ٹائٹس اے اور سی، گیسٹرو، پیٹ میں درد، مروڑ اور معدے کی تکالیف، ٹائی فائیڈ، ہیضے جیسے امراض کو جنم دے رہا ہے، جمع شدہ پانی کو بارش کا پانی سمجھ کر بچے اس میں کھیلتے ہیں دراصل اس پانی کو سیوریج کا پانی مزید آلودہ کر دیتا ہے اور بچوں میں جلدی بیماریوں، آنکھوں کی سوزش یا آشوب چشم، انفیکشن، گلے کی خرابی اور تیز بخار کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ احتیاط کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ بلدیاتی ادارے اپنی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے فوری طور پر شہر میں جراثیم کش اسپرے مہم کا آغاز کریں، کچرے کو جلانے کے بجائے انہیں شہر سے باہر مقررہ جگہ پر مقررہ طریقے سے تلف کریں اور سیوریج کے آلودہ اور گندے پانی کی فوری نکاسی کے لیے مناسب اقدامات کریں۔