افغانستان:2016 میں عام شہریوں کی ریکارڈ ہلاکتیں

240

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں تنازعات کے دوران افغان بچوں کو پہنچنے والے جانی نقصان میں 24 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جب کہ 2015 کے مقابلے میں 2016 میں مجموعی طور پر ہلاک و زخمی ہونے والے افغان شہریوں کی تعداد میں تین فیصد اضافہ ہوا۔

اقوام متحدہ کے اسسٹینس مشن ان افغانستان (یواین اے ایم اے) نے پیر کو کابل میں اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی، جس کے مطابق افغانستان میں تشدد کے واقعات میں 11 ہزار 400 افغان شہریوں کا جانی نقصان ہوا اور اْن میں سے 3500 ہلاکتیں ہوئیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ 61 فیصد شہری ہلاکتیں حکومت مخالف عناصر خاص طور پر طالبان کے حملوں کی وجہ سے ہوئیں۔

یواین اے ایم اے کی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ 24 فیصد جانی نقصان کی ذمہ دار حکومت کی حامی فورسز ہیں اور یہ اعداد و شمار 2015 کے مقابلے میں 46 فیصد اضافے کو ظاہر کرتے ہیں۔لڑائی کے دوران ہونے والے 10 فیصد جانی نقصان کی ذمہ داری کے بارے میں رپورٹ میں کچھ نہیں کہا گیا ہے، البتہ پانچ فیصد جانی نقصان کے بارے میں کہا گیا کہ اْس کی وجہ ماضی میں تباہ نہ ہونے والے بارودی مواد کے دھماکے ہیں۔ یواین اے ایم اے کے مطابق 2016 میں 923 بچے ہلاک اور 2589 زخمی ہوئے۔

 تنظیم کی طرف سے کسی ایک سال میں افغانستان میں بچوں کو پہنچنے والے جانی نقصان کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ زیادہ تر جانی نقصان جنگ کے دوران ماضی میں تباہ نہ ہونے والے بارودی مواد میں دھماکوں سے ہوا۔2009 میں جب سے یواین اے ایم اے نے شہریوں کے جانی نقصان کے اعداد و شمار جمع کرنے کا سلسلہ شروع کیا، اْس کے بعد سے شہریوں کے تحفظ میں کمی اور ہلاکتوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔براہ راست لڑائی خاص طور پر گنجان آباد علاقوں میں جنگ شہری جانی نقصان کی سب سے بڑی وجہ رہی جب کہ دیگر وجوہات میں بم دھماکے، خودکش حملے، مسلح حملے اور ہدف بنا کر ہلاکتیں شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان اور دیگر حکومت مخالف گروپوں کی طرف سے شہری علاقوں پر قبضے کی کوششیں بھی شہریوں کے جانی نقصان میں اضافے کا سبب ہیں۔یواین اے ایم اے کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ 2015 کی نسبت 2016 میں افغان اور بین الاقوامی فورسز کی فضائی کارروائیوں میں بھی شہری جانی نقصان میں اضافہ ہوا۔شدت پسند ’داعش‘ سے افغانستان میں جڑے عسکریت پسندوں کے حملوں میں گزشتہ سال ہونے والا جانی نقصان 2015 کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ تھا۔ایسے حملوں میں 209 شہری ہلاک اور 690 زخمی ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق 2015 میں داعش سے منسلک عسکریت پسندوں کے حملوں میں 39 شہری ہلاک جب کہ 43 زخمی ہو گئے تھے۔یواین اے ایم اے کے مطابق 2009 سے اب تک مسلح تنازعات میں 25 ہزار افغان شہری ہلاک جبکہ 45 ہزار زخمی ہوچکے ہیں۔