جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سید منور حسن نے کہا ہے کہ مغرب بخوبی جانتا ہے کہ اسلام غالب ہونے کے لئے آیا ہے، دنیا میں صورتحال تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ دینی و مذہبی جماعتوں کو اپنے اپنے پلیٹ فارم مظبوط کرنے ہوں گے ۔علمائے کرام کے حوالے سیکولر اور لبرل طبقے کے پروپیگنڈے کا جواب علمی اور فلسفہ کی سطح پر دیا جا نا چاہئے ۔تحریکات حریت میں یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ دینی جماعتوں کو منظم اور مظبوط کرنا ہوگا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے معروف صحافی و کالم نگار مولانا محمد شفیع چترالی کی کتاب “تحریکات حریت” کی تقریب پزیرائی سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔تقریب سے جامعة العلوم الاسلامیہ کے استاد الحدیث مولانا محب اللہ، جمعیت علمائے اسلام سندھ کے نائب امیر قاری محمد عثمان، جماعت اسلامی سندھ کے نائب امیر محمد حسین محنتی، آغا خان یونیورسٹی کے شعبہ تحقیق کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع شاکر ،مفتی محمود اکیڈمی کے منیجنگ ڈائریکٹرمحمد فاروق قریشی اور صاحب کتاب مولانا محمد شفیع چترالی و دیگر نے بھی خطاب کیا۔
سید منور حسن نے کہا کہ آج سے تیس پنتیس سال قبل صورتحال مختلف تھی ، اس وقت بین الاقوامی سطح پر اسلامی تشدد کے عنوانات سے جو پروگرامات منعقد ہوتے تھے ان میں مفاہمت کی گنجائش رہتی تھی مگر آج یہ صورتحال نہیں رہی ۔کیونکہ مغربی مفکرین یہ بات جان چکے ہیں کہ اسلام غالب ہونے کے لئے آیا ہے اوریہ مغلوب نہیں رہ سکتا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں کئی بار شکست سے دو چار ہوچکا ہے اور طالبان نے افغانستان میں امریکہ کو شکست سے دوچار کیا ہے کہ چونکہ میڈیا امریکہ کے زیر اثر ہے اس لئے امریکی شکست کا اعلان نہیں ہو رہا ۔انہوں نے کہا کہ سیکولر اور لبرل طبقے کی علمائے کرام کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے ،ہمارے گھروں کی صورتحال لبرل اور سیکولر اپروچ سے متاثر ہورہی ہے ۔اس لئے اس پروپیگنڈے کا جواب علمی ، جواب الجواب اور فلسفہ کی صورت میں دیا جانا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ مولانا محمد شفیع چترالی نے اپنے کتاب میں ایک یاد دہانی کرائی ہے اور یہ یاد دہانی بروقت کرائی گئی ہے ۔کتاب مختصر مگر اس میں تمام امور کا احاطہ کیا گیا ہے جو مصنف کی صلاحیت کا ثبوت ہے۔
مولانا محب اللہ نے کہا کہ آزادی بہت بڑی نعمت ہے ، لیکن آزادی کی حقیقت کو سمجھنا اور آزادی کس سے حاصل کی گئی ہے یہ جاننا بہت ضروری ہے ۔اس موضوع کو دینی و عصری تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل کرنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک ہم اپنی تاریخ سے نہیں جڑیں گے ہمارا معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔
قاری محمد عثمان نے کہا کہ مولانا محمد شفیع چترالی نے اپنے کتاب میں جس طرف ہماری توجہ مبذول کرائی ہے وہ صورتحال آج بھی درپیش ہے ، ان حالات کا تقاضا ہے کہ دینی و مذہبی جماعتیں متحد ہوکر غلبہ اسلام کے لئے کام کریں۔انہوں نے کہا کہ تاریخ سے نابلد ہونے کے سبب اس ملک میں مغربی تہذیب کو فروغ دیا جارہا ہے اس کا راستہ اہل علم ہی روک سکتے ہیں۔
محمد حسین محنتی نے کہا کہ انسانی اقدار میں سب سے بڑی قدر آزادی کی ہے ۔قوموں کی تاریخ میں آزادی بنیادی سنگ میل ثابت ہوتی ہے ۔اگرآج ہم نے ترقی حاصل کرنی ہے تو ہمیں اپنی تاریخ سے سبق حاصل کرنا ہوگا اور جب تک ہم میں ایمانی جذبہ پیدا نہیں ہوگا تب تک نہ تو ہم ترقی کرسکتے ہیں اور نہ ہی امت مسلمہ کے مسائل حل ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ اسلامی نطام کے نفاذ کے بغیر ہم تحریکات حریت کا ثمر حاصل نہیں کرسکتے اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے دینی و مذہبی جماعتوں کا اتحاد ناگزیر ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع شاکر نے کہا کہ حریت کے رشتے سے بڑھ کر کوئی رشتہ نہیں ہوتا ۔ترکی کے صدر طیب اردگان کے مطابق ان کی کامیابی کا راز ترک عوام کو اپنی تاریخ سے جوڑنا ہے اور یہی کام مولانا محمد شفیع چترالی نے کیا ہے ۔ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا پر ایک ہزار سال تک حکمرانی کی ہے۔مولانا محمد شفیع چترالی نے ہمیں اپنی تاریخ سے روزشناس کیا ہے، مقصد یہ ہے کہ ہم میں آزادی کی تحریک کا جذبہ ہونا چاہئے۔
مولانا محمد شفیع چترالی نے کہا کہ ہم نے ایک ریاست ضرور حاصل کی ہے مگر آزادی خودداری کانام ہے،اس کا سفر ابھی ممکن نہیں ہوا بلکہ جاری ہے۔ یہ کتاب ایک کوشش ہے کہ کس طرح ہمارے اکابر نے آزادی کے ورثے کی حفاظت کی۔ لیکن صورتحال یہ ہے کہ انگریز اور استعمار آج بھی ایک اور شکل میں موجود ہے جس سے آزادی حاصل کرنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ علمائے کرام نے قیام پاکستان کی مخالفت کی ہے اور یہ کہ پاکستان ایک سیکولر ملک ہے یہ الزام اور دعویٰ لاکھوں شہدا کے خون سے غداری ہے۔