کیا دنیا کا جغرافیہ تبدیل ہونے جارہا ہے؟

179

یہ جون 2006 کی بات ہے کہ ریٹائرڈ امریکی فوجی رالف پیٹرز نے امریکی آرمڈ فورسز جرنل میں ایک آرٹیکل لکھا تھا جس میں اس نے پاکستان کا نیا نقشہ پیش کیا تھا۔ اس نقشے میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کا صوبہ سرحد اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقے پاکستان سے ٹوٹ کر افغانستان کا حصہ بن گئے ہیں اور صوبہ بلوچستان ایک آزاد ملک بن چکا ہے۔ اس کے بعد پاکستان مختصر ہو کر موجودہ صوبہ سندھ اور پنجاب پر مشتمل پر رہ گیا ہے۔ 2006 میں ہی یہ نقشہ میں نے دوستوں کو ای میل کیا تھا اور اس پر دوستوں سے طویل گفتگو اور مباحثے بھی کیے تھے۔ اس وقت میں حیران تھا کہ صوبہ بلوچستان کس طرح پاکستان سے علیحدہ ہوکر ایک نیا ملک بن سکتا ہے اور صوبہ سرحد کے باسی کس طرح پاکستان سے الگ ہوکر افغانستان سے جڑ سکتے ہیں۔ بعد میں شور مچنے پر پنٹاگون سمیت سارے امریکی اداروں نے کہا تھا کہ اس نقشے کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہے اور یہ صرف ایک شخص کے خیالات ہیں۔
اس کے بعد میں نے بلوچستان کے موضوع پر پانچ قسطوں پر مبنی ایک سیریز بھی لکھی تھی اور تفصیل سے تجزیہ کرکے لکھا تھا کہ بلوچستان میں 28 اضلاع ہیں جن میں سے صرف 4 اضلاع میں گڑ بڑ ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں افغان سرحد سے متصل پوری بیلٹ میں بلوچ نہیں بستے۔ کوئٹہ جائیں تو کوئی بلوچی بولنے والا مشکل سے ملتا ہے، اس لیے آزاد بلوچستان دیوانے کی بڑ تو ہوسکتی ہے مگر اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔ ان ہی مضامین میں تفصیل سے اس سازش کے بارے میں لکھا تھا کہ کس طرح روس نے اس کی آبیاری کی تھی اور اس پروجیکٹ کو بعد میں امریکا، برطانیہ اور بھارت نے خرید لیا۔ یہ مضامین آج بھی میری ویب سائٹ پر موجود ہیں۔
پٹھان اور خاص طور سے قبائلی علاقوں میں رہنے والے پٹھان ہمیشہ ہی سے پاکستان کے حامی رہے ہیں۔ یہ قبائلی علاقوں میں رہنے والوں کی حب الوطنی ہی ہے کہ اتنی بڑی مغربی سرحد پر کبھی بھی پاکستانی حکومت کو فوج لگانے کی ضرورت نہیں پڑی اور مشرقی سرحدوں کی حفاظت کے لیے پاکستانی فوج سکون کے ساتھ اپنے کام میں مصروف رہی۔ کسی بھی خطے کو اس کے ملک سے الگ کرنے کے لیے سب سے اہم ضرورت اس علاقے کی اکثریت کا اس خیال سے متفق ہونا ضروری ہے۔ بھارت کشمیر میں سات لاکھ فوج رکھتے ہوئے بھی اس لیے ناکام ہے کہ کشمیری عوام بھارت کے ساتھ رہنے پر تیار نہیں ہیں۔ عوام کو قابو کرنے کے لیے بھارت وہاں پر اسرائیل کی طرز پر دیگر صوبوں سے برہمنوں کو کشمیر میں لا کر بسانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ مشرقی پاکستان کو بھارت اس لیے پاکستان سے علیحدہ کرنے میں کامیاب رہا کہ بنگالی ہندو مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کو اپنے رنگ میں رنگنے میں کامیاب ہوگئے تھے کہ مغربی پاکستان کے باسی خصوصاً پنجابی ان کا حق مار رہے ہیں۔
2006 میں جو بات میرے اور میرے احباب کی سمجھ میں نہیں آئی تھی اب وہ سازش سمجھ میں آنے لگی ہے۔ یہ دھکا دو اور کھینچو کی پالیسی ہے۔ ایک طرف پوری پشتو آبادی کے دل میں پاکستان سے نفرت بٹھادی گئی ہے۔ سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے اپنے ہی ملک کی آبادی کے ساتھ وہ کام شروع کیا ہے جو ٹرمپ تارکین وطن کے خلاف کارروائی کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ کررہا ہے۔
پٹھان آبادی کے دلوں میں کدورت پیدا ہونے کے بعد اچکزئی اور اسفندیار ولی کے بیانات دیکھ کر معاملات میں گڑ بڑ کا احساس ہونے لگا ہے۔ اب سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ تنخواہ دار ٹی وی چینلوں پر کلپ چلائے جارہے ہیں کہ صوبہ بدری کے بدلے خیبر پختون خوا میں لیے جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب خیبر پختون خوا میں تعصب کا پہاڑ کھڑا کردیا جائے گا۔ پھر چند ایجنٹ غیر پٹھانوں کی ٹارگٹ کلنگ شروع کردیں گے جسے عام پٹھانوں کی ترجمانی کا نام دیا جائے گا اور یوں اس خوفناک سازش کے لیے زمین کی ہمواری شروع کردی جائے گی۔
اس پوری خوفناک صورت حال کا تجزیہ کرنے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پاکستان کے ساتھ یہ خطرناک کھیل کیوں کھیلا جارہا ہے؟ اس کا آسان ترین جواب یہ ہے کہ نیو ورلڈ آرڈر کے لیے جو مرحلے رکھے گئے ہیں ان میں پہلے دنیا کے سارے ممالک کو ازسر نو ترتیب دینا ہے اور پھر اس کے بعد انہیں دس انتظامی یونٹوں میں تقسیم کرنا ہے۔ اسی کھیل کے لیے عرب کو میدان جنگ میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اسی کے لیے ٹرمپ کو لایا گیا ہے اور امریکا میں ریاستوں نے فیڈریشن سے علیحدگی کا عمل شروع کردیا ہے۔ اس نیو ورلڈ آرڈر کے لیے عالمی سازش کاروں نے کئی سنگ میل رکھے ہیں۔ اس کے تحت 2030 میں نیو ورلڈ آرڈر کا رسمی اعلان کرنا ہے اور 2050 تک پوری دنیا کو مکمل طور پر اس کے شکنجے میں کس دینا ہے۔
ذرا دوبارہ سے اقوام متحدہ کا ایجنڈا 2030 دیکھیے جس کا اعلان گزشتہ برس ہی کیا گیا ہے اور ساری دنیا کے حکمرانوں نے اس ہدف کو حاصل کرنے کے اعلان پر دستخط بھی کیے ہیں۔ اس پر بھی ایک مفصل آرٹیکل میری ویب سائٹ زپر موجود ہے۔ اس کے ساتھ ہی دنیا میں بدلتے ہوئے حالات دیکھیے، مشتبہ اور نہ سمجھ میں آنے والے سندھ اور پنجاب کی انتظامیہ کی چلت پھرت دیکھیے تو بہت ساری چیزیں سمجھ میں آنے لگتی ہیں۔ یہ سب کچھ نہ تو غلطیاں اور حماقتیں ہیں اور نہ ہی غلط منصوبہ بندی کا نتیجہ۔ ایک مرتبہ پھر تمام حالات کا جائزہ لیجیے۔ اس پر ہر طرح کے غوغا کے باوجود سندھ اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ دم سادھے ہوئے ہیں۔ اس موضوع پر یا تو گفتگو ہی نہیں کرتے یا پھر اناپ شناپ کرنے لگتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسکرپٹ کے عین مطابق ہے اور یہ تمام اداکار اپنے کردار کو اسکرپٹ کے مطابق کرنے پر مجبور ہیں۔ تھیٹر میں ہر اداکار کی کارکردگی کو نیو ورلڈ آرڈر کے بیک گراؤنڈ میں دیکھیں تو کھیل میں مدہوش ہونے کے بجائے بہت کچھ سمجھ میں آنے لگتا ہے۔ اصل موضوع سے توجہ ہٹانے کے لیے کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہ ناموس رسالت پر عدلیہ کی کارروائی اور اس پر شور و غوغا بھی ہوسکتا ہے اور دو پارلیمینٹرین کا گتھم گتھا ہونا بھی۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔