چوٹی کے دانشور

189

میاں رضا ربانی کا شمار چوٹی کے سیاستدانوں میں ہوتا ہے بلکہ سچ کہیں تو وہ چوٹی والے واحد سیاستدان ہیں۔ وہ بڑی خوبصورت سی پونی باندھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے کراچی میں خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ اردو ان پر جبراً مسلط کی گئی ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین کے ساتھ کسی بھی قسم کا جبر ہو، یہ بڑا جرم اور قابل دست اندازی پولیس ہے۔ اس کی تحقیق ہونی چاہیے اور جبر کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔ اب اس کی تحقیق عام پولیس تو کرنے سے رہی، چناں چہ کم از کم آئی ایس آئی کو یہ کام سونپا جائے۔
لیکن اردو کو جبراً مسلط کرنے والوں میں پہلا نام تو قائد اعظم کا آئے گا جنہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ہوگی۔ ڈھاکا میں یہ اعلان کرنے کے موقع پر ایک طالب علم مجیب الرحمن نے لڑکوں کو قائد کے خلاف اُکسایا تھا۔ پھر اسی مجیب الرحمن نے پاکستان سے غداری میں نمایاں کردار ادا کیا اور بھارتی ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھیل گیا۔ دوسرا نام میاں رضا ربانی کی پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کا آتا ہے جنہوں نے 73ء کے آئین میں طے کیا کہ 20 سال بعد پورے ملک کی قومی زبان اردو ہوگی۔ ان ہی کے دور میں اردو کے مسئلے پر کراچی میں ہنگامے ہوئے اور رئیس امروہوی نے نظم کہی کہ ’’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘۔ کئی برس گزر گئے، یہ جنازہ اب بھی کندھوں پر رکھا ہوا ہے اور میاں رضا ربانی جیسے دانشور تدفین کی جگہ تلاش کررہے ہیں۔ واقعی وہ بڑے دانشور ہیں۔
رضا ربانی نے اپنے خطاب میں یہ بھی فرمایا کہ اردو ان کی مادری زبان ہے لیکن انہیں یہ زبان نہیں آتی۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو کیا اس میں کوتاہی مادر مہربان کی ہے یا ماں کی زبان نہ سمجھنے والوں کی نالائقی۔ موصوف کا کہنا تھا کہ اردو تو مجھے آتی نہیں اس لیے انگریزی میں کتاب لکھ لایا ہوں۔ اب یہ نہیں معلوم کہ انگریزی ان کی پدری زبان ہے یا خود اکتسابی ہے۔ انگریزی پر عبور کا یہ عالم کہ پورے 150 صفحات کی کتاب لکھ ڈالی اور اُمید ہے کہ یہ کام تنہا ہی کیا ہوگا‘ ڈیڑھ سو صفحے کے کتابچے کے لیے کسی کی مدد کیا لینا۔ اس کی قیمت غالباً7 سو روپے ہے۔ اسے کون خریدے گا؟
فرماتے ہیں کہ وہ عوام کے لیے کچھ کرنے چلے ہیں، ان عوام کے لیے جس کی اکثریت کو انگریزی نہیں آتی اور وہ ان کی گفتگو یا تحریر سمجھنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے۔ میاں صاحب! انہوں نے یہ کتاب کس کے لیے لکھنے کی زحمت کی ہے؟ اردو میاں رضا ربانی کو نہیں آتی اور اس پر شرمندہ بھی نہیں بلکہ اسے قومی زبان بنانے کو ریاستی جبر قرار دے رہے ہیں۔ ان کو ریاست کا یہی جبر نظر آرہا ہے اور ہم سوچ رہے ہیں کہ ہم پر کیسے کیسے لوگ جبراً مسلط کردیے گئے ہیں، ان کے بارے میں کوئی نہیں بولتا۔
بے شمار پنجابی، پٹھان اور بلوچ ادیب و شاعر ایسے ہیں جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے لیکن وہ نہ صرف اس زبان میں ادب پارے تخلیق کررہے ہیں، بہترین شاعری کررہے ہیں لیکن کبھی اس کو جبر قرار نہیں دیا۔ سب سے بڑی مثال تو علامہ اقبال کی ہے جو سیالکوٹ کے پنجابی تھے اور ساری عمر پنجاب میں گزاری۔ لیکن اردو اور فارسی میں ان جیسا کوئی شاعر برعظیم نے تو پیدا نہیں کیا۔ حفیظ جالندھری، فیض احمد فیض، حفیظ ہوشیار پوری، ابن انشاء اور بے شمار لوگ اردو کی آبرو ہیں۔ صوبہ خیبرپختونخوا پر نظر ڈالیں تو نمایاں نام احمد فراز کا ہے۔ قتیل شفائی کا تعلق بھی ہری پور، ہزارہ سے تھا۔ نثر نگاروں کی تو بڑی طویل فہرست ہے۔ لیکن میاں رضا ربانی کو کیا معلوم، وہ تو پڑھ لکھ نہیں سکتے۔
کشمیری نژاد پنجابی حضرت شورش کاشمیری کی مادری زبان اردو نہیں تھی لیکن وہ اردو کے بے مثال خطیب، شاعر اور صحافی تھے۔ دیکھیے وہ اردو کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ لیکن رضا ربانی صاحب کیسے پڑھ پائیں گے۔ ممکن ہو تو کسی سے پڑھوا کر سن لیں۔ شورش کہتے ہیں:
’’اردو پنجاب کی علاقائی زبان نہیں پاکستان کی قومی زبان ہے، فی زمانہ اردو ہی واحد زبان ہے جو عربی سے باہر کی زبانوں میں اسلام کا سب سے زیادہ فکری و نظری ادبی و تہذیبی اور ثقافتی سرمایہ رکھتی ہے۔ خود اسلام سے متعلق فکر و نظر اور علم و تاریخ کے میدانوں میں جتنا وسیع کام ہوا ہے اس کا ایک قیمتی حصہ اردو زبان میں ہے‘‘۔
اردو کے جبری تسلط کے دعویداروں کے شورش کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان کے عوام کے درمیان ایک اہم رشتہ اردو زبان کے ذریعے قائم ہے۔ اردو پاکستان کے کسی خاص علاقے کی زبان نہیں ہے لیکن پھر بھی سارے علاقے کی زبان ہے۔ ایک سندھی اور ایک پنجابی اسی زبان میں تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ ایک پٹھان اور ایک بنگالی اسی زبان کے ذریعے اپنا مافی الضمیر النصیر ایک دوسرے پر واضح کرسکتے ہیں۔ لیکن صوبائی عصبیت کا بُرا ہو کہ اس زبان کے خلاف بھی جو پاکستان کی تمام اکائیوں کے درمیان ایک مضبوط ذریعہ اتحاد ہے، دل اور ذہن کی تنگ نظری کی بنا پر معاندانہ محاذ قائم کیا جارہا ہے…. اردو صرف ایک زبان ہی نہیں بلکہ ایک کلچر ہے۔ اس کو صرف اس لیے نظر انداز کردینا کہ یہ مملکت کی اکثریت کی زبان نہیں ہے، پاکستان کی بنیادوں کی جڑ کھودنے کے مترادف ہے…. اردو زبان سارے پاکستان کا سرمایہ فخر ہے اور آج اسلام کی دوسری بڑی زبان ہے۔ عربی کے بعد اسلام کا بہت بڑا علمی، ادبی اور تہذیبی سرمایہ اس میں منتقل ہوچکا ہے۔ علاقائی زبانوں کا فتنہ بھی سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کا پیدا کردہ ہے جو پاکستان کے ذریعے اظہار و ابلاغ کو تاراج کرکے مسلمانوں کی ملی وحدت کو علاقائی تعصبات سے ذبح کرنا چاہتے ہیں تا کہ جس زبان کے لٹریچر نے مسلمانوں کے ملی وجود کو سہارا دے رکھا ہے وہ علاقائی زبانوں کے دشنہ و خنجر سے ہلاک ہوجائے (اس پہلو پر سندھ کے وزیر نثار کھوڑو بھی توجہ فرمائیں)
شورش کاشمیری نے مطالبہ پاکستان کی بنیاد میں اردو کو بھی شامل کیا ہے۔ لیکن پاکستان میں جبراً مسلط ہونے والوں کو تو اردو ہی نہیں آتی اور اس پر کوئی ندامت بھی نہیں۔ ہمارے ممدوح میاں رضا ربانی بلاشبہ ایک دانشور ہیں، لیکن شورش کاشمیری کا کہنا ہے کہ دانشوروں کی مثال اس مغنی کی سی ہے جو مرثیہ کے وقت سہرا پڑھتا ہے اور صبح پر شام کے لہجے میں تبصرہ آتا ہے، لیکن وہ یہ کام اردو میں تو کرتے ہوں گے۔ اس سب کے باوجود میاں رضا ربانی چوٹی کے دانشور ہیں اور اپنی وضع کے واحد۔