دبستان کراچی کانعتیہ منظر نامہ(صبیح رحمانی)

273

اس ضمن میں لطیف اثر کے حمدیہ اور نعتیہ مجموعے بھی قابلِ توجہ ہیں، جو اسماء الٰہی و اسماء نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ردیف بنا کر تخلیق کی گئی ہیں۔ یہاں دبستانِ وارثیہ کراچی کے نعتیہ مشاعروں کی اس روایت کا بھی ذکر ضروری ہے، جس میں شعرا کو مصرع طرح دینے کے بجائے ردیفیں دی گئیں اور یوں ان مشاعروں کی طویل روایت میں سامنے آنے والی نعتیں اس اعتبار سے قابلِ توجہ ٹھہریں کہ ان میں شعرا نے بحر اور قافیے کی پابندی سے آزاد رہتے ہوئے اپنی فکری اور تخلیقی توانائی کا بھرپور اظہار کیا اور اس کے نتیجے میں نعت کو وہ فنّی، فِکری اور معنوی وسعتیں میسّر آئیں خ جنہوں نے قارئین کو تازگی اور خیال افروزی کا نیا ماحول فراہم کیا۔
کراچی کے شعرا نے نعت کو ہندی گیتوں کے انداز میں بھی لکھا ۔ ایسے شعرا میں اسد محمد خاں، نگار صہبائی، ع س مسلم، قمرالدین احمد انجم، آفتاب کریمی، مہر وجدانی اور ادیب رائے پوری کے نام قابل ذکر ہیں۔ نعتیہ تضمین نگاری کے ضمن میں جو نام کراچی میں نمایاں ہوئے ان میں حنیف اسعدی، مہر وجدانی، حافظ عبدالغفار حافظ، نصیر آرزو، تابش دہلوی، محشر بدایونی، صبا اکبرآبادی وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح سانیٹ نگاری کے نمونے بھی نعتیہ متن سمیٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جن شعرا نے نعتیہ سانیٹ کی طرف توجہ کی، ان میں کامل ا لقادری، عارف منصور، صبیح رحمانی اور آفتاب کریمی کے نام نمایاں ہیں۔ نعتیہ ادب میں منظوم ترجمہ نگاری بھی کراچی کے شعرا کے تخلیقی مزاج کا حصہ رہی ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، شان الحق حقی، صبا اکبرآبادی، سحر انصاری، عزیز احسن، مہر وجدانی، آفتاب کریمی ، افتخار احمد عدنی وغیرہ کے نام سرِ فہرست ہیں۔ نثری نظم اعتراضات کا شکار رہی، تاہم اس نے صنفِ سخن کی حیثیت بعض شعرا کی توجہ حاصل کرلی۔ خوشی اس بات کی ہے کہ نثری نظم کا دامن بھی نعت کے جواہر پاروں سے خالی نہ رہا۔ احمد ہمیش اور ڈاکٹر ابوالخیر کشفی نے اس صنف میں نعت کہنے کی سعادت حاصل کی۔
دبستانِ کراچی میں خانوادہ تصوف کے جو لوگ آئے، وہ اپنے تزکیۂ نفس کی تعلیم اور تصوف کی اصطلاحات لے کر نعت گوئی کی طرف آئے، جیسے بابا ذہین شاہ تاجی، مولانا ضیاء القادری بدایونی، علامہ شمس بریلوی، شاہ انصار الٰہ آبادی، عزیز الاولیا سلیمانی، سید ظہورالحسنین شاہ ظاہر یوسفی تاجی، صوفی شاہ محمد سلطان میاں، شاہ ستار وارثی، حیرت شاہ وارثی، عنبر شاہ وارثی، صوفی جمیل حسین رضوی، شاہ قاتل، شاہ قاسم جہانگیری، بابا رفیق عزیزی، شاہ محمد عبدالغنی، نیر مدنی، بقا نظامی، شفیق احمد فاروقی، کمال میاں سلطانی، آفتاب کریمی اور پیرزادہ سیّد خالد حسین رضوی وغیرہ:
خوش رہیں تیرے دیکھنے والے
ورنہ کس نے خدا کو دیکھا ہے
(ذہین شاہ تاجی)
محمد کی صورت میں حق جلوہ گر ہے
حقیقت ہے یا میرا حسنِ نظر ہے
(شاہ انصار الٰہ آبادی)
اعجاز سراپا ہے یا جلوہ گہ قدرت
اے قامتِ بے سایہ اے سایۂ بے ظلمت
(عزیزالاولیا سلیمانی)
دعویٰ ہے من رانی محبوبِ سرمدی کا
لولاک ایک ہیرا تاجِ محمدی کا
(شاہ محمد عبدالغنی)
کسی ایک شاعر کی زمینوں میں نعت کہنے کی طرح بھی دبستانِ کراچی ہی کے شعرا نے ڈالی ہے۔ غالب کی زمینوں میں یہ ادبی کارنامہ پہلے ساجد اسدی نے (پیغام بر مغفرت) کے نام سے، اس کے بعد راغب مرادآبادی نے اپنے مجموعے (مدحتِ خیرالبشر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اور پھر محمد امان خان دل نے (شہِ لولاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) میں سرانجام دیا۔ ان شعرا کے اس کام کو دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے موضوع کے لحاظ سے فکر کی بَلندی اور شعور کی تہذیب کو از اوّل تا آخر برقرار رکھا اور اپنی شاعری کی ہیئت اور مافیہ دونوں کی فنی وحدت کو مرزا غالب کی زمینوں میں طبع آزمائی کرکے نعتیہ ادب کے تاریخی ورثہ میں بیش بہا اضافہ کیا ہے:
ساغر دل میں بھری ہے مئے حب احمد
دل سے اٹھتی ہے تو بنتی ہے دعا موجِ شراب
(ساجد اسدی)
میں کہ اے راغبؔ انہیں کا ہوں غلام کمتریں
ان کے قدموں سے لپٹ جاؤں تو ٹھکرائیں گے کیا
(راغب مرادآبادی)
عمر کیا تھی مرے دکھ درد کی، گر تھی اے دل
ان کی بس ایک عنایت کی نظر ہونے تک
(امان خان دل)
صنعتِ عاطلہ یا غیر منقوط کی پابندی عائد کرکے شعر کہنا بشرطیکہ شاعر خیال کے ابلاغ، حسنِ اظہار، زبان کی لطافت اور الفاظ کے دروبست پر گرفت رکھتا ہو، اظہارِ کمالِ فن ہوتا ہے۔ اس صنعت میں بھی دبستانِ کراچی کے شعرا نے اپنے نعتیہ مجموعے پیش کیے۔ مدحِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (راغب مرادآبادی)، مصدر الہام (صبا متھراوی) اور روح الہام (شاعر لکھنوی) نے اپنے ان نعتیہ مجموعوں میں اتنی معنوی و صوری خوبیاں پیدا کردی ہیں کہ ہم انہیں ایجاز میں اعجاز اور شاعری میں ساحری کی مثال کے طور پر پیش کرسکتے ہیں۔ان کے علاوہ بھی مولانا محمد ولی رازی، رشید وارثی وغیرہ نے اس صنف کو نعت سے روشن رکھا:
لاکھ در مدح محمد ہمہ دم لکھا ہے
اس کا احساس مسلسل ہے کہ کم لکھا ہے
حوصلہ کس کو کہ حال اس کے کرم کا لکھے
کرم اس کا ہے کہ احوالِ کرم لکھا ہے
(شاعر لکھنوی)
تغزل نعتوں میں اور بالخصوص غزلیہ نعتوں میں اکثر نظر آتا ہے لیکن کہیں کہیں اس تغزل کی سطح ایسی ہوتی ہے کہ یہ نعت کے اشعار حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات سے متعلق معلوم نہیں ہوتے۔ مثلاً :
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
مرے چمن کی فضائیں سلام کہتی ہیں
*
جس میں ہو ترا ذکر، وہی بزم ہے رنگیں
جس میں ہو ترا نام، وہی بات حسیں ہے
اس اندازِ کلام کو کون نعت احمد مختار کے حوالے سے جانے گا؟ دبستانِ کراچی کے شعرا نے تغزل کے اس لہجے کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نسبت سے ایسی بَلندی عطا کی ہے کہ خود غزل کا لہجہ رفیع تر ہوگیا ہے:
کسی کا نام لے کر آگیا تھا بزمِ امکاں میں
کسی کا نام لے کر جارہا ہوں بزم امکاں سے
(ارمان اکبر آبادی)
اس دل میں رہ چکی ہے تمنا گناہ کی
یہ دل ترے خیال کے قابل نہیں رہا
(جمیل نقوی)
یا کرے اس کا تذکرہ ہر شخص
یا کوئی ہم سے گفتگو نہ کرے
(شکیل احمد ضیا)
ایک ہی در سے بر آتی ہے کہاں سب کی اُمید
ہاں مگر ایک در ایسا نظر آتا ہے مجھے
(نیاز بدایونی)
یہ کس کا ذکر لب پر ہے کہ خوشبو
دہن سے گفتگو کرنے لگی ہے
(رضی اختر شوق)
یہ چند شعر جو پیش کیے گئے ہیں، ان میں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اسم گرامی کہیں نہیں آیا، لیکن قرینۂ کلام اور الفاظ کا مؤدب بیٹھنا کتنا واضح ہے۔
اُردو میں حمد و نعت کے علاوہ منقبت کا سلسلہ بھی پرانا ہے۔ کراچی کے شعرا کی خدمات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انہوں نے منقبت کو نعت کے دائرے میں شامل کیا ہے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے تین ہمیشہ قائم رہنے والے معجزے، آپ کا اُسوہ، قرآن حکیم اور صحابہ و اہلِ بیت ہیں۔ آج کے نعت گو شعرا وابستگانِ رسول کے کردار اور زندگی میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی اور اُسوہ کے نقوش دیکھ رہے ہیں، جو دراصل قرآن ہی کا اتباع ہے۔
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِط وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ (الفتح )کے چند الفاظ میں یہ حقیقت سمٹ آئی ہے۔ نعت گوئی میں، کسی کی بھی نسبت حضور کی نسبت پر منتقل ہو کر زیادہ معتبر ہوجاتی ہے۔ چند شعر ملاحظہ کیجیے:
جز نسبت صدیقی کیا نام و نسب اپنا
ہم ان کے رفیقوں کے قدموں کے نشاں ٹھہرے
(سرشار صدیقی)
انہی کے قرب سے بوبکر بن گئے صدیق
ملی علی کو اسی ذات سے سیادت بھی
(عزیز احسن)
ان کے قدموں پہ گرے ریت کی دیوار سے وہ
سہل تھا جن پہ پہاڑوں کو سنبھالے رکھنا
(زیب غوری)
وہ ان ہی کے صحابہ تھے، جنہوں نے ان کی چاہت میں
نہ اپنی جاں کو جاں سمجھا، نہ اپنے گھر کو گھر جانا
(منظر عارفی)
وہ جس کی ضو سے تابندہ ہیں بدر و کربلا اب تک
عطا اُمید کو یارب وہی کردار ہوجائے
(اُمید فاضلی)
اگر ہم اُسوۂ آلِ نبی اپنائیں تو صہبا
بہت دُشوار یہ دُنیا بہت آسان ہوجائے
(صہبا اختر)
جیلانی و چشتی ہوں وہ رومی ہوں کہ سعدی
روشن ہیں ہر اک ذہن میں افکارِ مدینہ
(صفدر صدیق رضی)
(جاری ہے)