(عالمی یوم صحت انٹرویو:(قاضی عمران احمد

167

سوال: سب سے پہلے تو اپنا مکمل تعارف کرا دیجیے؟
جواب: میرا نام ڈاکٹر لبنیٰ انصاری بیگ ہے اور میں جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی میں شعبہ پبلک یعنی ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ کی ڈین ہوں اور جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی کی پرو وائس چانسلر کی بھی ذمے داری ہے۔ بنیادی طور پر جس میں میں کام کرتی ہوں وہ عوامی صحت ہے۔ اس کے علاوہ طبی تعلیم کے حوالے سے بھی میرا کافی بڑا کردار رہا ہے۔ میں پاکستان کی پہلی پی ایچ ڈی ہوں جس نے باہر سے جا کر طبی تعلیم میں پی ایچ ڈی کیا اور یہاں سندھ یونی ورسٹی میں پبلک ہیلتھ پر کام کر رہی ہوں اور پورے سندھ میں بھی طبی تعلیم کے حوالے سے پروگرام متعارف کرائے ہیں۔ ڈاؤ میڈیکل یونی ورسٹی کا 2010ء پہلا میڈیکل ایجوکیشن کا پروگرام میں نے شروع کیا تھا۔ اس وقت اور بھی لوگ تھے ڈاکٹر معین تھے ڈاکٹر قاسم تھے اور ہم لوگوں نے بنیاد رکھی تھی کہ میڈیکل اور ڈینٹل تعلیم کے معیار کو بہتر کیا جائے۔ پبلک ہیلتھ کی تعلیم کے حوالے سے ہمارا بڑا اہم کردار رہا ہے۔
سوال: ٹریفک کا نظام کس طرح پبلک ہیلتھ کو متاثر کرتا ہے؟
جواب: کراچی میں اس وقت ٹریفک بہت برا حال ہے جب ہم زمانہ طالب علمی گاڑی چلایا کرتے تھے تو کہتے تھے کہ سب سے اچھا ٹریفک کا نظام کراچی کا ہے، جب نارتھ کی طرف جاتے ہیں تو ٹریفک خراب ہوتا ہے۔ اس وقت بالکل الٹ حالات ہیں کوئی ٹریفک کا پوچھنے والا نہیں ہے۔ شاہراہ فیصل پر لوگ الٹے آ رہے ہوتے ہیں اور ٹریفک پولیس تو نظر ہی نہیں آتی۔ نظر بھی آتی ہے تو ایک بندہ کھڑا ہوتا ہے اور ٹریفک اتنا بڑھ چکا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں ہر ماہ نئی موٹر سائیکلیں اور سینکڑوں کی تعداد میں نئی گاڑیاں ٹریفک میں شامل ہوتی ہیں اور اس کے لیے شہر میں کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ بد قسمتی سے جو سٹی پلاننگ ہونی چاہیے وہ بالکل نہیں ہے۔ اب اس ٹریفک کا پرابلم کیا ہوتا ہے؟ حادثات بڑھ جاتے ہیں۔ موٹر سائکل کے لیے ایک زمانے میں اصول تھا جو ابھی بھی ہے اور ٹریفک قوانین کی کتاب میں بھی لکھا ہوا ہے کہ موٹر سائیکل والے الٹے ہاتھ پر چلیں گے۔ اب یہ حالات ہیں کہ نہ ٹی وی پر کوئی اعلان ہے، نہ اخبار والے بات کرتے ہیں اور موٹر سائیکل والے جو بغیر لائسنس کے موٹر سائیکل چلا رہے ہیں، انہوں نے وہ کتاب بھی نہیں پڑھی ہوتی ہے، پوری سڑک کے اوپر دائیں بائیں گاڑیوں کے درمیان سے چلاتے ہیں۔ اس سے مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اگر تو وہ ٹکرا جاتے ہیں، ظاہر ہے یہ منی بس والے ہیں ان کو تو جانوں کی کوئی پروا نہیں ہوتی، یہ ٹکر مار دیتے ہیں اگر وہ خدا نہ خواستہ دنیا سے چلے گئے تو مسئلہ ختم۔ اگر حادثہ ہو جاتا ہے اور ساتھ میں تین چار بچے بٹھائے ہوئے ہیں اور اگر وہ معذور ہو جاتے ہیں تو وہ ہیلتھ سسٹم پر بوجھ بن جاتے ہیں، ان کے خاندان برباد ہو جاتے ہیں۔ موٹر سائیکل چلانے والوں کو یہی نہیں پتا ہوتا کہ ہمیں کس طرح اور کس طرف موٹر سائیکل چلانی چاہیے پھر ہماری ایک ثقافتی چیز ہے اور وہ یہ کہ موٹر سائیکل پر خواتین دونوں پاؤں ایک طرف کر کے بیٹھتی ہیں جس سے موٹر سائیکل کا توازن مکمل طور پر بگڑا ہوا ہوتا ہے اس کے برعکس دنیا میں کہا جاتا ہے کہ موٹر سائیکل پر دونوں طرف پاؤں کر کے بیٹھیں چلیں یہ تو ہمارا ثقافتی مسئلہ ہے مگر چوں کہ ہمارے پاس بسیں نہیں ہیں، ٹرانزٹ سسٹم نہیں ہے، لوگ موٹر سائیکل کو گاڑی کی طرح استعمال کرتے ہیں اور اس پر چار چار بچے بٹھائے ہوئے ہوتے ہیں تو ٹکرانے کے باعث حادثہ ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے یہ حادثات بے انتہا بڑھ رہے ہیں، اسپتالوں میں بہت زیادہ کیسز اس کے لائے جاتے ہیں۔
سوال: شہر میں ہونے والے حادثات کے یومیہ اعداد و شمار کتنے ہیں جو رپورٹ ہوتے ہیں؟
جواب: ایک محتاط اندازے کے مطابق یومیہ دن میں صرف جناح اسپتال میں 20 سے 30 کیسز موٹر سائیکل حادثات کے آتے ہیں، اگر ہم پورے شہر کے 6 بڑے اسپتالوں کا اندازہ لگائیں تو کم سے کم بھی دن میں 100 میجر موٹر سائیکل حادثات ہوتے ہیں۔ ہم نے ایک تربیتی نشست بھی کی تھی جس میں ہم نے خواتین کو آگہی دی تھی کہ وہ جو حجاب لیتی ہیں وہ دوپٹہ اس طرح سے گلے میں باندھیں کہ ڈھیلا ہو اور تنگ نہ ہو، اس طرح دوپٹہ یا عبایا موٹر سائیکل میں پھنس جاتا ہے تو وہ گلے کے اندر اتنا سخت ہو جاتا ہے کہ اللہ ہی انہیں بچاتا ہے، اتنے بل آ جاتے ہیں کہ ان کی جان کو خطرہ ہو جاتا ہے، گلے میں وہ اٹک کر پہیے یا چین میں پھنس جاتا ہے جس سے گلے میں کٹ بھی آ جاتے ہیں۔ ایک فیشن جو لمبی قمیضوں اور بڑے پائنچے کی شلواروں یا پاجاموں کا بھی ہے جو موٹر سائیکل سواری کے لیے اور بھی زیادہ خطرناک ہے جس کی وجہ سے ٹانگ بھی ٹوٹ جاتی ہے، یہ ایک بہت ہی سیریس قسم کا ایشو ہے۔ موٹر سائیکل والے جب موٹر سائیکل چلا رہے ہوتے ہیں تو چوں کہ اس شہر میں ماحولیاتی آلودگی بھی ہے، کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے تو اس ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے، بہت کم لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہے، قوت فیصلہ بھی کم ہو جاتی ہے، اب ان لوگوں نے ہیلمٹ نہیں پہنا ہوتا اگر پہنا بھی ہوتا ہے تو اس شخص نے پہنا ہوتا ہے جو موٹر سائیکل چلا رہا ہوتا ہے، ہیلمٹ پہننا چاہیے ہر اس شخص کو جو موٹر سائیکل پر بیٹھا ہوا ہے چاہے وہ بچے ہوں، خواتین ہوں یا بزرگ ہوں کیوں کہ اس پر ہیڈ انجری کا بہت زیادہ خدشہ ہوتا ہے اور اس سے اس کی جان کا خطرہ ہے، سب سے زیادہ جو چھوٹے بچے ہوتے ہیں ان کو تو بہت ہی زیادہ خطرہ ہوتا ہے، سامنے معصوم اور چھوٹا بچہ بیٹھا ہوتا ہے اور اس کی حفاظت کے لیے کوئی کوئی اقدام نہیں کیا جاتا۔ دوسری بات یہ کہ وہ بچے جو مستقل آگے بیٹھے ہوتے ہیں اور بسوں سے نکلنے والے دھوئیں (جس میں کاربن، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ ہوتی ہے) سے مسلسل متاثر ہورہے ہوتے ہیں اور یہ ساری وہ چیزیں ہیں جو انسان کے اندر ہلکی ہلکی سی نیند پیدا کر دیتے ہیں، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے، آنکھوں میں جلن بڑھ جاتی ہے، ایسے میں ہوتا یہ ہے کہ چاہے آپ غلط چلا رہے ہوں یا اگلا غلط چلا رہا ہو، سڑک پر ایک لڑائی جھگڑا فساد شروع ہو جاتا ہے، اس سارے لڑائی، جھگڑے، فساد سے ٹریفک جام ہو جاتا ہے۔ جب ٹریفک جام ہو گیا، لڑائی جھگڑا فساد شروع ہو گیا، ویسے ہی ہم ایک عدم برداشت معاشرہ بن چکے ہیں، ہم ایک دوسرے کی برداشت ہے ہی نہیں جس کے باعث ایک مطالعہ کیا گیا تھا کہ شہر میں ڈپریشن کی جو شرح تھی وہ دس فی صد سے بھی کم تھی۔ شہر کراچی میں کہ اس وقت جہاں پہلے دس منٹ لگتے تھے وہاں اب ایک ایک گھنٹہ لگ رہا ہے تو وہی لوگ جو پہلے آرام سے پہنچ جاتے تھے، اب جب آپ گھنٹہ گھنٹہ سڑک پر خرچ کریں گے تو ڈپریشن تو رہے گا۔ میرے اندازے کے مطابق شہر میں 20 سے 30 فی صد لوگ ڈپریشن کا شکار ہیں۔ ڈپریشن کا شکار ہونے کے بعد کیا ہوگا؟ اگر آپ ڈپریشن کا شکار ہیں یا صرف انزائٹی بھی ہے تو آپ کی صحت پر اثر پڑے گا، آپ پر اثر پڑے گا تو کمائی پر اثر پڑے گا، جب کمائی پر اثر پڑے گا تو گھریلو حالات خراب ہوں گے اور جب گھریلو حالات خراب ہوں گے تو بیماریاں مزید بڑھ جائیں گی، بیماریاں بڑھیں گی تو بچوں کی تعلیم پر اثر پڑے گا تو آپ کی اگل نسل جو آپ نے تعلیم یافتہ اٹھانی ہے، بچے جو ہمارا مستقبل ہیں ان کی تربیت میں ہم پورا وقت نہیں دے پائیں گے۔