این جی اوز مافیا کے مقاصد

886

zc_GhazalaAzizپچھلے دنوں جینوا میں انسانی حقوق کمیشن کا اجلاس ہوا۔ پاکستان سے ایک وفد وفاقی وزیر اقلیتی امور کی سربراہی میں شریک ہوا۔ شرکت کا اہم مقصد مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف رپورٹ کرنا تھا۔ لیکن وفد کو اپنے مقصد میں کامیابی تو دور کی بات ہے اُلٹا شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ کیوں کہ این جی اوز سے وابستہ خواتین کا ایک وفد خاص ایجنڈے کے تحت اجلاس میں شریک تھا۔ جس نے پاکستان میں اقلیتوں سے متعلق ایک بھرپور رپورٹ پیش کی، جس کے مطابق انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان میں اقلیتوں کے سیاسی اور قانونی حقوق پورے نہیں کیے جارہے، چناں چہ وہاں اقلیتی برادری عدم تحفظ کا شکار ہے۔
اس کے جواب میں اقلیتی امور کے وزیر اور وفد کے دیگر ارکان نے کیا کہا خبر میں اس کی وضاحت نہیں ملتی۔ ہاں یہ ضرور بتایا گیا کہ اُس رپورٹ کے باعث سرکاری وفد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، حالاں کہ اقلیتی امور کے وزیر کی موجودگی خود اس رپورٹ کے خلاف ایک ثبوت تھا۔ پچھلے مہینے یعنی جون 2017ء میں وزیر داخلہ نثار علی خان نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی تھی کہ نئے ضوابط اور قواعد کے تحت تمام این جی اوز کی رجسٹریشن مکمل کی جائے۔ جس سے سارے نظام میں شفافیت آئے گی۔ یہ ملک کی سلامتی اور سیکورٹی کے لیے نہایت اہم ہے۔ انہوں نے اس عمل کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ماضی میں این جی اوز کو جن مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا اُس کے باعث حکومت اور این جی اوز کے درمیان اعتماد کا فقدان پیدا ہوا۔ جنیوا میں این جی اوز کی اس حرکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاملہ اب بھی وہیں کا وہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مغرب رفاہی اداروں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ پچھلے دس سال کے دوران صرف امریکی ادارے پاکستان میں کھلے اور چھپے کم از کم 13 بلین ڈالر کی رقم این جی اوز کو ادا کرچکے ہیں۔ یہ رقم اشتہارات، دستاویزی فلموں، سماجی سرگرمیوں کے نام پر دی گئی ہیں۔ معاملہ یوں ہے کہ امریکی سی آئی اے کا مضبوط نیٹ ورک ملک عزیز کے طول و عرض میں جما چکا ہے۔ ہمارے حکمران امریکی تھنک ٹینک کی سرگرمیوں کا حصہ بن رہے ہیں۔ دستاویزی فلموں اور فوٹو سیشن کے ذریعے ان این جی اوز کے کرتا دھرتا کروڑ پتی بن گئے ہیں، صرف آزاد کشمیر میں امداد اکٹھی کرنے والی این جی اوز کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ کروڑ پتی اور ارب پتی بن گئے ہیں، یہ این جی اوز بیرون ملک لوگوں کو اسمگل کرنے میں بھی ملوث ہیں۔ بظاہر تعلیم کے لیے کام کرنے والی یہ این جی اوز طلبہ و طالبات کو بھاری معاوضے کا لالچ دیتی ہیں، بعد میں بلیک میل کرتی ہیں اور تو اور خواتین اور بچوں کو بیرون ملک اسمگل کیے جانے کے علاوہ ان کی خریدوفروخت بھی کرتی ہیں۔ یوں ان این جی اوز کے مالکان اور نمائندے خود تو کروڑ پتی اور ارب پتی بن گئے ہیں مگر جن کے لیے غیر ملکی امداد لی جاتی ہے وہ اُسی طرح کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسی این جی اوز نے غیر قانونی معاہدوں اور ہتھکنڈوں کے ذریعے سیکڑوں بے بس خاندانوں سے ان کے چشم و چراغ چھین لیے ہیں۔ یہ کام کس قدر منافع بخش ہے اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ آزاد کشمیر کی چھوٹی سی ریاست میں تقریباً ساڑھے چھ سو این جی اوز کام کررہی ہیں۔ بلوچستان میں ساڑھے سولہ سو این جی اوز رجسٹریشن کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صوبے میں مصروف عمل ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے حوصلے اتنے بلند ہوگئے ہیں کہ بعض تنظیمیں سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد پھیلانے کے لیے بھی فنڈنگ میں ملوث ہیں۔ اپریل 2017ء میں اس حوالے سے تحقیقات کی گئی تھیں اور گرفتاریاں بھی ہوئی تھیں، اس کے علاوہ غیر ملکی دبائو کے نتیجے میں مخصوص نظریات کی حامل این جی اوز کے ذریعے ایسا تعلیمی نصاب تعلیمی اداروں میں نافذ کرنے کی کوشش ہورہی ہے جو آزادی کے نام پر انتشار اور اسلام سے بیزاری پیدا کرنے کا باعث ہو۔
2013ء میں خاص طور سے تعلیمی نصاب میں جنسی تعلیم کو متعارف کروانے کے لیے حکومت کے تحت منصوبہ بنایا گیا، اس کام میں اقوام متحدہ کے اداروں نے بڑی مستعدی دکھائی۔ کچھ خاص این جی اوز کو سرگرم کیا، اپنے اس کام میں حکومت سے پالیسی جاری کروائی، سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے منظور شدہ نصاب میں چھٹی سے دسویں تک بچوں اور بچیوں کو یہ پڑھایا جارہا ہے کہ ان کا کسی بھی (جاننے والا یا اجنبی) سے جنسی تعلق کس نوعیت کا ہونا چاہیے۔
لاہور ہائی کورٹ نے کچھ عرصے قبل ایک این جی او کو عدالت میں طلب کیا کیوں کہ اُس کی طرف سے گجرانوالا کے سرکاری اسکولوں میں تقسیم کی گئی کتابوں میں تعلیم دی جارہی تھی کہ لڑکیوں کو لڑکوں کے ساتھ اور لڑکوں کو لڑکیوں کے ساتھ کیسے دوستی کرنی چاہیے۔
حکومت پنجاب کے 2013-2017 کے تعلیمی منصوبے میںSexual and reproductive health and rights (SRHR) کا واضح ذِکر موجود ہے جس میں اقوام متحدہ نے جنسی حقوق کی تعریف کرتے ہوئے جن حقوق کا ذکر کیا ہے ان میں جوڑے چننے کی آزادی کا حق، جنسی طور پر متحرک ہونے یا نہ ہونے کا حق، اس سے متعلق معلومات کو پڑھانے، حاصل کرنے اور جاننے کا حق وغیرہ شامل ہے۔ اس منصوبے میں این جی اوز کے لازمی کردار کا ذکر بھی ہے۔ پاکستان میں بہت سی این جی اوز اس ایجنڈے پر کام کررہی ہیں جس کے تحت مسلسل مختلف نجی اور سرکاری اسکولوں میں اس سے متعلق کتب پڑھانے کی کوشش جاری ہے۔
ایسا خطرناک ایجنڈا رکھنے والی این جی اوز کی سازشوں سے نمٹنے کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ پوری قوم کو غور و فکر کرنا ہوگا، عملی اقدامات کرنے ہوں گے، ضروریات زندگی کو ضرورت مندوں تک پہنچانے کے لیے فکر مند ہونا ہوگا، خدمت اور اصلاح کا جذبہ لے کر آگے بڑھنا ہوگا۔ یوں تو پاکستانی قوم خدمت اور فلاح کے منصوبوں پر خرچ کرنے کے لیے پوری دُنیا میں اوّل نمبر پر ہے لیکن عملی زندگی میں اپنے وقت کو بھی اس کے لیے خرچ کرنے کا رویہ عام ہونا چاہیے کہ ضرورت مندوں کے لیے کام آنا بلند ترین عبادت ہے۔ مظلوموں اور مسکینوں کا سہارا بننے کے لیے اسلام میں خاص طور سے تاکید کی گئی ہے، قرآن بار بار سمجھاتا ہے، یوں مغرب جو رفاہی خدمات کو این جی اوز کے ذریعے ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے پھر اپنی امداد کو ان این جی اوز کے ذریعے اپنے نیٹ ورک کو مضبوط کرنے کا کام لے رہا ہے، پھر ہمارے معاشرے میں بے راہ روی، انتشار اور فرقہ بندی کو پھیلا رہا ہے، اُسے ناکامی ہوگی۔
یاد رہے کہ بیرونی امداد کا ایک بڑا حصہ اِن این جی اوز کے ذریعے خرچ کیا جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ حکومت ملک و قوم کے مفاد میں این جی اوز کے لیے قواعد و ضوابط بنائے اور اُن کے نفاذ کے لیے شفافیت کو لازم اہمیت دینی چاہیے اور کسی قسم کے بیرونی دبائو میں نہیں آنا چاہیے۔ دنیا میں مغرب کے اس تاثر کو عالمی میڈیا نے بڑی دلجمعی سے پیش کیا ہے کہ ’’مغرب انسانیت کا خدمت گار ہے‘‘۔ مسلم ممالک میں جنگوں کو مسلط کرنے، لاکھوں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے، لاکھوں لوگوں کو بے گھری کے عذاب میں مبتلا کرنا اور معصوم بچوں سے ان کے گھر اور ماں باپ کی گود سے چھین کر انہیں موت یا معذوری سے نوازنے والے مغرب کو اب یہ دعویٰ سجتا نہیں ہے۔ دوسری طرف عالمی میڈیا مسلمانوں کے خلاف منفی مہم کے باعث ریلیف کے میدان میں ان کی خدمات کو بھی خطرہ قرار دیتا ہے۔ ان کے اکائونٹ منجمد کردیتا ہے، ان پر بغیر ثبوت کے دہشت گردوں کی معاونت کا الزام لگاتا ہے، مغرب کا یہ طرز عمل انتہائی منافقانہ اور انسانیت دشمنی پر مبنی ہے، ریلیف کے نام پر ملکوں میں انتشار، بدامنی، تفرقہ مذہبی اور معاشرتی اقدار کی تباہی اُس کا اصل مقصد ہے۔