رپورٹ: تنویر انجم
امت مسلمہ کے حرمین مکی و مدنی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ اس وقت تاریخ کے خطرناک موڑ پر ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کے رہنماؤں‘ تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی شدید تنقید کے باوجود اسرائیل کی جانب سے ہمیشہ کی طرح نت نئے اور شرمناک ہتھکنڈوں کا استعمال جاری ہے جس کا مقصد صرف صہیونی ریاست کی غاصبانہ پالیسیوں پر عمل اور فلسطینی مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنانے کے سوا کچھ نہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور ان کی انتظامیہ آئے روز نئی یہودی آباد کاری اور پہلے سے قائم بستیوں کو یہودیانے کے لیے مکانات کی تعمیر کے منصوبے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان ناپاک سازشوں کی راہ میں رکاوٹ بننے والے فلسطینیوں کو طاقت کے زور پر کچلا جا رہا ہے۔ چاقو رکھنے کے الزامات اور محض شبہے کی بنیاد پر گرفتاریاں، انتظامی حراست، قید و بند کی صعوبتیں اور جیلوں میں بند کرکے تشدد کرنا صہیونی اہل کاروں کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے۔ محصور پٹی غزہ، نابلس، الخلیل اور دیگر علاقوں میں اسرائیلی انتظامیہ کا ساتھ دینے کے لیے فلسطینی صدر محمود عباس اور ان کی نام نہاد حکومت بھی فلسطینیوں کے خلاف اقدامات سے گریز نہیں کرتیں۔ مزاحمتی تحریک کے تحت کوئی کارروائی ہو یا صہیونی ریاست کی زیادتیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ، فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت عباس ملیشیا کے اہل کار فلسطینیوں کو تشدد کرتے اور گھسیٹتے ہوئے گرفتار کرکے لے جاتے ہیں، ایسے اقدامات سےاسرائیلی عزائم کی تکمیل ہوتی ہے۔
بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی، جنگی جرائم سمیت درجنوں کلنک کے داغ چہرے پر سجائے اسرائیلی حکومت مقبوضہ بیت المقدس کی سرحدی حیثیت کو تبدیل کرنے کے در پہ ہے۔ نیتن یاہو انتظامیہ، ارکان پارلیمان اور شدت پسند یہودی جماعتیں اور وزرا اپنی ناپاک سوچ اور منصوبوں کے ذریعے قبلہ اول میں مسلمانوں کی عملداری اور آمد کو کم سے کم یا ختم کرنے کے بعد اسے سرحدی طور پر تقسیم اور 1967ء کے سرحدی معاہدے کی خلاف ورزی جاری رکھتے ہوئے اپنا قبضہ جمانے کا خواب دیکھ رہے ہیں، جسے فلسطینیوں کا عزم کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دے گا۔
گزشتہ تقریباً دو ہفتوں سے قابض صہیونی فوج کی جانب سے وحشت و جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے قبلہ اول کو فلسطینیوں کے خون سے نہلانے کے بعد مسجد اقصیٰ میں اذان اور نمازوں کی ادائیگی پر پابندی کی ناپاک کوششوں پر فلسطینی قوم ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام میں شدید غم وغصے کی فضا پائی جا رہی ہے۔ قابض صہیونی ریاست نے قبلہ اول کے مروجہ نظام کو تبدیل کرتے ہوئے نام نہاد سیکورٹی اقدامات کی آڑ میں مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں کے داخلے پرپابندیاں عاید کردیں۔ ان مکروہ پابندیوں کے جواب میں فلسطینی شہریوں نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے صہیونی پابندیوں کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اسرائیلی ریاست کی جانب سے نصب کردہ ان ذلت کے دروازوں (الیکٹرانک گیٹس) سے گزرنے سے بھی دو ٹوک انکار کرکے دشمن پر واضح کیا ہے کہ اس کی قبلہ اول کو بند کرنے کی مجرمانہ چال کسی صورت میں کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق نام نہاد نصب کیے گئے برقی دروازے نہ صرف مسجد اقصیٰ میں فلسطینیوں کی آزادانہ اور باوقار آمد ورفت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں بلکہ یہ کینسر جیسے موذی امراض کے پھیلاؤ کا بھی موجب بن سکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ صہیونی ریاست فلسطینیوں سے بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور وہ مسجد اقصیٰ، اس کے ارکان اور حرم قدسی پر اپنے آہنی قبضے کو مضبوط بنانے کے لیے ایسے ہتھکنڈوں کا کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔ اس حوالے سے فلسطینی دانشور ڈاکٹر عبدالستار قاسم نے کہا کہ فلسطینی شہریوں اور محکمہ اوقاف نے ان ذلت کے دروازوں کے حوالے سے یکساں موقف اختیار کرکے صہیونی ریاست کو ایک نئی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ توقع ہے کہ صہیونی ریاست مسجد اقصیٰ کے بیرونی راستوں پر دروازوں کی تنصیب کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے لگائے گئے سیکورٹی گیٹ فوری ہٹائے گی کیونکہ فلسطینی قوم نے مکمل یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کو پیغام دے دیا ہے کہ انہیں اسرائیلی پابندیاں کسی صورت میں قبول نہیں۔ فلسطینی قوم ان ذلت کے دروازوں میں جھک کر قبلہ اول میں داخل نہیں ہوں گے۔
ڈاکٹر القاسم نے بیت المقدس اور مقبوضہ مغربی کنارے کے عوام سے اپیل کی کہ وہ اسرائیلی فوج اور ریاست کے دباؤ میں نہ آئیں اور برقی دروازوں کے ہٹائے جانے اور دیگر پابندیوں کے مکمل خاتمے تک احتجاج جاری رکھیں۔
تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو اندازہ ہوگا کہ یہ پہلا موقع نہیں جب صہیونی ریاست نے مسجد اقصیٰ پر اپنی بالادستی کے قیام کے لیے قبلہ اول پر پابندیاں عاید کی ہیں۔ 1967ء میں مسجد اقصیٰ پر قبضے کے بعد اسرائیلی حکومت کے ایک عہدیدار مرڈ خائی گور نے قبۃ الصخرہ میں گھس کر اسرائیلی پرچم لہرایا اور ایک ہفتے تک قبلہ اول میں فلسطینیوں کا داخلہ بند رکھا گیا۔
اس کے بعد 25 ستمبر 1996ء کو فلسطین میں انتفاضہ النفق شروع ہوئی۔ یہ تحریک مسجد کے باب الغوانمہ کے قریب مغربی سمت سے اسرائیل کی ایک سرنگ کی کھدائی کے خلاف فلسطینیوں کی احتجاجی تحریک تھی۔ اس تحریک کے دوران صہیونی فوج کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں 60 فلسطینی جام شہادت نوش کرگئے۔
28 ستمبر 2000ء کو اسرائیلی وزیراعظم ایرئیل شیرون نے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کا ارتکاب کیا تو فلسطینی شہریوں نے انتفاضہ الاقصیٰ شروع کی۔
30 اکتوبر 2014ء کو بھی قابض فوج نے مسجد اقصیٰ کو مکمل طور پر بند کردیا اور مسجد میں قبلہ اول کے ڈائریکٹر اور 7 محافظوں کے سوا اور کوئی فلسطینی نماز ادا نہ کرسکا۔
گزشتہ ماہ 29 جون کو اسرائیلی فوج نے یہودی آباد کاروں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے مسجد اقصیٰ کو سیل کیا اور فلسطینیوں کو داخلے سے روک دیا گیا تھا۔
صہیونی ریاست کی جانب سے لگائی جانے والی حالیہ پابندیوں کے حوالے سے بیت المقدس سے تعلق رکھنے والی ایک فلسطینی خاتون خدیجہ خویص نے کہا کہ مسجد اقصیٰ کے باہر برقی دروازوں کی تنصیب دراصل اہلیان القدس کی توہین اور تذلیل کا مکروہ صہیونی حربہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ صہیونی فوج اور پولیس ان دروازوں سے داخلے کی شرط عاید کرکے بیت المقدس کے ہرچھوٹے بڑے، مرد وخواتین کی توہین کرنا چاہتے ہیں۔ ان دروازوں سے جھک کر گزرنے کا مطلب اسرائیلی فوج کے سامنے جھک کر چلنے کے مترادف ہے۔ خدیجہ خویص کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک گیٹس سے گزرنے والی خواتین کے سامان میں اگر کوئی دھاتی چیز کی نشاندہی ہوئی تو اسرائیلی پولیس کو خواتین کی جامہ تلاشی لینے اور ان کے سامان کی تلاشی کی آڑ میں ان کی تذلیل کا موقع ملے گا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے باہر برقی دروازوں اور میٹل ڈیٹیکٹر کی تنصیب فلسطینی شہریوں کو قبلہ اول سے دور کرنے اور انہیں وہاں عبادت سے روکنے کی کوشش ہے کیونکہ ان دروازوں کی آڑ میں اسرائیلی فوج کسی بھی فلسطینی شہری کو حراست میں لینے کے ساتھ جیلوں میں بند کرنے کے مکروہ حربے استعمال سکتے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج کی جانب سے مسلمانوں کے قبلہ اول میں اذان اور نمازوں سمیت فلسطینیوں کی ہرطرح کی عبادت پرعاید کردہ پابندی کو تقریباً دو ہفتے ہوچکے ہیں۔ زندہ دلان فلسطین تو قبلہ اول کےدفاع کے ہراول دستے کے طورپر تن من دھن کی قربانیاں دے رہے ہیں مگر وارثان قبلہ اول جس خواب غفلت کا شکار ہیں اس کے نتائج انتہائی بھیانک اور خوفناک ہوسکتے ہیں۔ مسلم امہ اور عرب ممالک کی مجرمانہ خاموشی نے صہیونیوں کو قبلہ اول کے خلاف اپنے مکروہ عزائم کو آگے بڑھانے کے لیے مزید جری کردیا ہے۔ بے یارو مدد گار فلسطینی قوم اور قبلہ اول مسلم امہ کو پکار کر اسے خواب غفلت سے بیدار کررہی ہے مگر عالم اسلام کو نہ تو فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی کوئی پروا ہے اور نہ ہی انہیں قبلہ اول کی ناپاک صہیونیوں کے ہاتھوں ہونے والی مسلسل بے حرمتی کا کوئی احساس ہے۔ قبلہ اول کے تقدس اور اس کی حرمت کا معاملہ روز بہ روز حساس سے حساس تر ہوتا جا رہا ہے۔
اس نازک صورت حال کے پیش نظر فلسطینی دانشوروں نے قبلہ اول کو درپیش سنگین بحران پر عالم اسلام کے منفی کردار پرگہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں 20 سال تک پابند سلاسل رہنے والے فلسطینی دانشور اور جامعہ پولی ٹیکنیک کے استاد عبدالعلیم داعنا نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بالعموم پوری مسلم امہ بالخصوص عرب حکمرانوں کا طرز عمل انتہائی شرمناک ہے۔ دفاع قبلہ اول کے لیے عالم اسلام اور عرب دنیا میں جس بیداری کی تحریک کی ضرورت ہے اس کا کوئی نام ونشان تک نہیں۔ جب تک مسلمان ممالک اور عرب دنیا قبلہ اول کی نصرت کا علم نہیں اٹھاتی اس وقت تک صہیونی قبلہ اول کا تقدس پامال کرنے کی جسارت کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بعض مسلمان ملکوں کی طرف سے انفرادی سطح، غیرسرکاری یا انفرادی نوعیت کے مذمتی بیانات سے قبلہ اول کو لاحق خطرات کا تدارک ممکن نہیں۔ عالم اسلام کے طرز عمل سے لگتا ہے کہ انہوں نے مسجد اقصیٰ سے قطع تعلق کر رکھا ہے۔ اس وقت فلسطینی قوم تنہا قبلہ اول کے دفاع کے لیے میدان میں ہے۔ اس کی مدد اور نصرت کے لیے کوئی مسلمان یا عرب ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار ابو صالح نے عرب ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی تمام تر توانائیاں قبلہ اول کے دفاع اور نصرت القدس کے لیے وقف کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان اور عرب اقوام قبلہ اول اور بیت المقدس کی حفاظت صرف فلسطینیوں پر نہ چھوڑیں بلکہ اپنے حصے کا کام کریں۔ جب مسلمان اور عرب ممالک نے قبلہ اول پر قبضہ کرنے والے دشمن کے ساتھ سفارتی، تجارتی اور اقتصادی تعلقات قائم کررکھے ہیں تو وہ کیسے اپنے مفادات کو قبلی اول پرقربان کرسکتے ہیں۔ قبلہ اول کو درپیش حالات اسرائیل سے تعلقات قائم رکھنے والے مسلمان اور عرب ممالک کا امتحان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خدشہ ہے کہ کل کو یہ نام نہاد عرب اور مسلمان ممالک سرے سے قبلہ اول ہی سے دست بردار ہوکر اسے صہیونیوں کے حوالے کردیں گے۔
حالیہ دنوں میں قبلہ اول میں داخلے سمیت مسلمانوں پر عائد کی گئی پابندیوں اور فلسطینیوں کے احتجاجی مظاہروں، ریلیوں اور دھرنوں کے دوران غاصب انتظامیہ کی فوج، پولیس اور فلسطینی نوجوانوں میں ہونے والی جھڑپوں کے بعد حرم قدسی کے اطراف کے کئی دیہات، قصبے اور فلسطینی کالونیاں صہیونی فوج کی چھاؤنیوں کا منظر پیش کررہی ہیں۔ چپے چپے پر ہزاروں صہیونی فوجی، پولیس اور خفیہ اداروں کے اہلکار تعینات ہیں۔ ان کی تعیناتی کا مقصد مزاحمتی کارروائیوں کو روک کر فلسطینیوں کا حوصلہ پست کرنا اور فدائی حملے میں یہودی فوجیوں کی ہلاکت کا بیت المقدس کےشہریوں سے بدلہ لینا ہے۔
بیت المقدس کے مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ گھروں سے نکلنے سے قاصر ہیں۔ اسرائیلی فوج کو جہاں بھی 2 یا 3 فلسطینی ایک ساتھ دکھائی دیتے ہیں ان پر آنسوگیس کی شیلنگ، فائرنگ یا دھاتی گولیوں کی بوچھاڑ کردی جاتی ہے۔ یوں وقفے وقفے سے فلسطینی شہری اسرائیلی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بن کر زخمی ہو رہے ہیں۔
حرم کے قریب رہنے والے فلسطینی باشندوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج اور پولیس کی بھاری نفری نے مسجد اقصیٰ کو ملانے والے راستوں، قصبوں، چوراہوں اور گلیوں کا آہنی محاصرہ کررکھا ہے۔ ناکا بندی اس حد تک سخت ہوچکی ہے کہ فلسطینیوں کا دو قدم آسانی سے چلنا محال ہے۔ مستقل چیک پوسٹوں کے علاوہ بڑی تعداد میں ہنگامی ناکے لگائے گئے ہیں۔ رہی سہی کسر گشت کرنے والی مسلح اسرائیلی فوج نے نکال دی ہے۔ یوں صہیونی ریاست نے ایک طرح کا غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔ گھر سے باہر نکلتے ہی فلسطینیوں کو اپنی شناخت کے کئی اور بار بار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ تلاشی کے دوران شہریوں سے انتہائی توہین آمیز اور شرمناک سلوک کیا جاتا ہے۔ بعض فلسطینیوں کو سرعام کپڑے اتارنے پرمجبور کرکے صہیونی فوج اپنا مکروہ چہرہ بے نقاب کررہی ہے۔
(بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین)