اردن ‘ عصمت دری کی سزا کا متنازع قانون منسوخ

438

عمان (انٹرنیشنل ڈیسک) اردن کی پارلیمان نے کسی عورت کی عصمت دری کے مرتکب ملزم کی سزا سے متعلق متنازع قانون کو منسوخ کردیا ہے۔اس قانون کے تحت اگر کسی عورت کی عصمت دری کرنے والا ملزم اس کے ساتھ شادی کر لیتا تھا تو وہ اس صورت میں زنا کے جرم کی سزا سے بچ سکتا تھا۔ سرکاری خبررساں ایجنسی بطرا کے مطابق ارکان پارلیمان نے مجموعہ تعزیرات کی متنازع دفعہ 308 کی تنسیخ سے اتفاق کیا ہے۔ اس دفعہ کے تحت جنسی جرائم میں ملوث شخص اگر متاثرہ عورت سے شادی کر لیتا تھا، تو پھر اس کو قانونی طور پر سزا نہیں دی جاسکتی تھی۔ پارلیمان میں منظور کردہ نئے قانون کے تحت اس دفعہ کو مکمل طور پر ختم کردیا گیا ہے۔ مجموعہ تعزیرات میں ترمیمی دفعات شامل کر دی گئی ہیں۔ واضح رہے کہ انسانی حقوق کے کارکنان ایک عرصے سے اس قانون کی تنسیخ کا مطالبہ کرتے چلے آ رہے تھے۔اس قانون کے تحت زناکار مرد متاثرہ عورت سے شادی کے بعد اس کو 5 سال تک طلاق بھی نہیں دے سکتا تھا۔ اردن کے وزیراعظم ہانی ملقی نے منگل کے روز پارلیمان میں بحث کے دوران اس متنازع قانون کی تنسیخ کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو دفعہ 308 کی تنسیخ کے لیے پُرعزم ہے، تاکہ اردن میں خاندانی نظام کو بچایا جاسکے۔ ابھی اس فیصلے کو ایوانِ بالا سے منظوری ملنا باقی ہے، جس کے بعد شاہ اس پر دستخط کر کے اسے عملی قانون بنا دیں گے۔ اردن کے بعض قانون ساز اس قانون کو مخصوص حالات میں برقرار رکھنا چاہتے تھے، مثلاً جہاں ملزم پر 15 سے 17 برس کی عمر میں مرضی سے جنسی عمل کرنے کا الزام ہو۔ واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ایک اور عرب ملک تیونس کی پارلیمان نے بھی اس سے ملتا جلتا ایک قانون ختم کردیا تھا اور ملک میں خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کے لیے ایک نئے ترمیمی قانون کی منظوری دی تھی، جب کہ لبنان میں اس قسم کے قانون کے خاتمے کی کوشش جاری ہے۔ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اس خطے کے وہ ملک جہاں اب بھی یہ قانون موجود ہے ان میں الجزئر، عراق، کویت، لیبیا اور شام شامل ہیں۔