پرویز مشرف کی آئین دشمنی

236

zc_Mian Muneerنواز شریف وزارتِ عظمیٰ سے نااہل ہوئے ہیں تو پرویز مشرف بھی وطن واپسی کے لیے پر تولنے لگے ہیں غالبا انہیں یقین ہے کہ نواز شریف کی عدم موجودگی میں ان کی وطن واپسی آسان ہوسکتی ہے اور اس کے بعد پاکستانی سیاست میں ان کا کردار بھی شروع ہو سکتا ہے اگلے عام انتخابات میں ان کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے لیے امید افزاء حالات پیدا ہونے کی انہیں قومی امید ہے اب کوئی پوچھے کہ اس موقع پر جب ملک میں جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے اور دس برسوں میں دوبار اسمبلی کے اندر سے وزیر اعظم کی تبدیلی عمل میں آئی ہے اور پارلیمانی نظام بخوبی چلنا شروع ہوگیا ہے، انہیں یہ موازنہ کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ جرنیلوں نے اچھا کام کیا یا سول حکمرانوں نے یہ کہنا تو بالکل ہی بے تکی بات لگتی ہے کہ فوجی حکمرانوں نے ملک کو پٹڑی پرڈالا اور سول حکمران اسے پٹڑی سے اتارتے رہے جب حقائق یہ ہیں کہ ملک کو پٹڑی سے اتارنے میں اصل کردار ہی فوجی حکمرانوں کا ہے۔ فوجی و سول کی اس کش مکش نے ہی تو ہمیں سیاسی طور پر مستحکم نہیں ہونے دیا جب تک فوجی اور سول حکمرانوں کی باریاں چلتی رہیں، دونوں ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھیرا کر عوام کو بے وقوف بناتے رہے۔ اب سول حکمرانوں کے پاس اگلے ایک دو انتخابات کے بعد ایسا کوئی عذر نہیں رہے گا جسے وہ استعمال کرکے خود کو بری الزمہ قرار دے سکیں۔یہ کتنی احمقانہ بات ہے کہ ملک کو آئین کی پٹڑی سے اتار کر یہ دعویٰ کیا جائے کہ فوجی آمر نے ملک کو پٹڑی پر ڈال دیا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگ بھول جائیں کہ پرویز مشرف نے لال مسجد سے لے کر اکبر بگٹی تک کیا کیا گل کھلائے ہیں پرویز مشرف کے اس نظریے کو بھی کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا کہ آئین کی کچھ شقوں کو معطل کرکے اگر ملک بچتا ہے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں اسی نظریے سے تو پاکستان میں فساد پھیلتا رہا ہے، آئین کو کسی بھی صورت میں معطل کیا ہی نہیں جاسکتا آئین کیا ملک کی سلامتی کا دشمن ہے کہ اس کی کچھ شقیں معطل کردی جائیں آئین تو ملک کی روح ہے، جس پر عمل درآمد ہر قیمت پر ہونا چاہئے۔ پرویز مشرف نے چوں کہ آئین توڑا اور انہیں آرٹیکل 6کا بھی سامنا ہے، اس لیے وہ ایسی بے تکی باتیں کررہے ہیں۔ کسی ملک کے لیے اگر اس کا آئین مقدس نہیں تو پھر انارکی اور انتشار اس کا مقدر ہے ایک آمر اپنے دورِ اقتدار میں جو بھی اقدامات کرتا ہے، وہ عارضی ہوتے ہیں فوجی آمر کی سب سے بڑی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے غیر آئینی اقتدار کو طول دے۔ اسے یہ خوف بھی ہوتا ہے کہ آئین بحال ہوگیا تو اس کا احتساب بھی ہوگا، اس لیے وہ حتیٰ الامکان یہ کوشش کرتا ہے کہ آئین پورے طور پربحال نہ ہو پی سی او کے تحت ملک چلاتے ہوئے آپ چاہے کچھ بھی کرگزریں، وہ ملک کے لیے دیرپا اور مفید ثابت نہیں ہوتا۔ ایک آمر کی سوچ کیا ہوتی ہے، اس کا اندازہ آپ سابق جرنیل پرویز مشرف کی اس بات سے لگائیں، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ عوام کو اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ ملک میں جمہوریت ہے یا آمریت، انہیں تو اپنے روزگار، شہری سہولتوں اور خوشحالی سے مطلب ہوتا ہے اگر پرویز مشرف کی اس بات کو درست مان لیا جائے تو پھر وہ یہ بتائیں کہ انہیں اپنے اقتدار کے لیے سیاسی جماعتوں کو ساتھ کیوں ملانا پڑا؟ وہ قاف لیگ کا گند کیوں اٹھا کر اپنے گھر لائے؟ پیپلزپارٹی کو کیوں توڑا، پیٹریاٹ کیوں بنائے گئے، این آر او کرنے پر کیوں مجبور ہوئے۔
اگر شہری روزگار ہی چاہتے ہیں تو پھر مشرف نے ایسے انتخابات کیوں کرائے جو جعلی تھے اور جن میں عوام کی رائے کو سلب کیا گیا تھا؟ ان انتخابات میں ایک ایک سیٹ کے نتائج پہلے سے طے شدہ تھے پرویز مشرف کہتے ہیں عوام خوشحالی اور ذاتی تحفظ اور سلامتی چاہتے ہیں مشرف یہ تو بتائیں کہ بارہ مئی کا تحفہ کس نے اس ملک کو دیا؟ جس میں ایک ہی دن میں 50لاشیں کراچی کی سڑکوں پر گرائی گئیں، اور پھر پارلیمنٹ کے سامنے مکا لہرایا کہ بتایا کہ یہ میری طاقت کی نشانی ہے، مشرف دور وہی دور تھا جب بھارتی جاسوس کشمیر خان کو آزاد کرکے واہگہ کے راستے بھارت روانہ کیا گیاپرویز مشرف کو یاد ہوگا کہ انہوں نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا تھا، صرف اپنی ذات اور اقتدار کو بچانے کی کوشش میں ایک فون کال پر ڈھیر ہوگئے امریکا کو اڈے دیے اور افغانستان کی جنگ کو پاکستان میں منتقل کردیا، چوں کہ وہ کسی کو جواب دہ نہیں تھے، اس لیے من مانے فیصلے کرتے چلے گئے، ان میں زیادہ تر فیصلے ملک کے مفاد میں نہیں، بلکہ اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے کیے گئے انہوں نے مصلحت آمیز فیصلے کئے کٹھ پتلی وزرائے اعظم بناکر انہوں نے قوم کو دھوکا دینے کی کوشش کی افغان جنگ کی وجہ سے پرویز مشرف دور میں بھی بے تحاشا امریکی امداد اور غیر ملکی فنڈنگ ہوئی، اس میں کتنی کرپشن ہوئی کسی کو کچھ معلوم نہیں، تاہم اس کی وجہ سے معاشی حالات بہتر ہوئے، لیکن قوم نے اس کے بدلے دہشت گردی کی صورت میں جو قیمت چکائی، وہ فائدے سے کہیں زیادہ تھی پرویز مشرف نے مختار کل ہونے کے باوجود کوئی ایسی تبدیلیاں نہ کیں جو گڈ گورننس کے حوالے سے کارآمد ثابت ہو سکتیں، انہوں نے ضلعی حکومتوں کے نظام کا جو تجربہ کیا، وہ بھی کرپشن کی نذر ہوگیا اور عوام کو ریلیف نہ دے سکا، اگر پرویز مشرف واقعی اپنے اس موقف کو سچ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ فوجی آمر ملک کو پٹڑی پر ڈالتے اور سول اسے پٹڑی سے اتاردیتے ہیں تو انہیں ملک میں آکر عوام کے سامنے اپنا یہ موقف رکھنا چاہیے۔ مقدمات سے گھبراکر خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والے کو عوام کس طرح اپنا نجات و ہندہ مان سکتے ہیں یا وہ یہ دعویٰ کیسے کرسکتا ہے کہ اس نے ملک کو پٹڑی پر ڈال دیا تھا، جب کہ اس دعوے کی حمایت میں اس کے پاس ایک دلیل بھی موجود نہیں۔