شمالی کوریا کیساتھ فوری مذاکرات نہیں ہوسکتے، امریکا

318

منیلا (انٹرنیشنل ڈیسک) امریکا کے و زیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کے معاملات پر دنیا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ فوری مذاکرات کا کوئی امکان نہیں۔ پیر کے روز فلپائن کے دارالحکومت منیلا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ریکس ٹلرسن نے کہا کہ امریکا پیانگ یانگ کی کمیونسٹ حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے پر صرف اسی صورت میں غور کرے گا جب وہ بیلسٹک میزائلوں کے تجربات مکمل طور پر بند کردے۔ تاہم شمالی کوریا پہلے ہی واضح کرچکا ہے کہ اس کا میزائل تجربات روکنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کی نمایندہ تنظیم آسیان کے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے منیلا میں ہیں، جس میں خطے میں سیکورٹی کی صورتِ حال اور خدشات پر بات چیت کی جارہی ہے۔ آسیان ریجنل فورم کےعنوان سے ہونے والے اجلاس میں 26 ممالک کے وزرائے خارجہ اور یورپی یونین کے اعلیٰ نمایندے شریک ہیں۔ منیلا میں جاری اجلاس کے موقع پر اتوار کے روز شمالی و جنوبی کوریا کے وزرائے خارجہ کے درمیان مختصر بات چیت بھی ہوئی تھی، جس میں اطلاعات کے مطابق شمالی کوریا کے وزیر خارجہ ری یانگ ہو نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ ان کا ملک اپنے موقف میں تبدیلی پر آمادہ ہے۔ شمالی کوریا کے حالیہ بیلسٹک میزائل تجربات کے ردِ عمل میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ہفتے کے روز امریکا کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی تھی، جس میں شمالی کوریا پر نئی اور مزید سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ امریکی سفارت کاروں کے مطابق نئی پابندیوں کے نتیجے میں شمالی کوریا کو سالانہ ایک ارب ڈالر کا اضافی مالی خسارہ اور نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ اتوار کی شب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جنوبی کوریا کے صدر مون جائے ان نے ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران شمالی کوریا کے میزائل تجربات کو براہِ راست اور سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے نئی پابندیوں کی حمایت کی تھی۔ گفتگو کے بعد صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں پابندیوں کی قرارداد کی متفقہ منظور پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے قرارداد کی حمایت کرنے پر روس اور چین کا شکریہ ادا کیا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ نے اتوار کے روز منیلا میں اپنے چینی ہم منصب وانگ یی اور روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے بھی علاحدہ علاحدہ ملاقاتیں کیں، جس میں انہوں نے شمالی کوریا کے خلاف مشترکہ موقف اپنانے پر زور دیا تھا۔امریکی وزیر خارجہ نے پیر کے روز بتایا کہ انہوں نے اپنے روسی ہم منصب سرگئی لا روف کو آگاہ کر دیا ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت نے دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد کی خطرناک صورت حال پیدا کر دی ہے۔ منیلا میں سرگئی لاروف سے ملاقات کے بعد ٹلرسن کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے روسی ہم منصب کو متنبہ کر دیا ہے کہ واشنگٹن کریملن کی جانب سے روس میں امریکی سفارتی مشن کو کم کرنے کے فیصلے کے جواب پر غور کر رہا ہے۔ ٹلرسن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم نے مداخلت کے دوررس خطرات کے ادراک کے لیے سرگئی لاروف کی مدد کی، کیوں کہ اس صورت حال سے نمٹنا ہم پر لازم ہے ۔ دوسری جانب روسی وزیر خارجہ نے اس ملاقات کے بعد کہا کہ مشرقی یوکرائن کی کشیدگی سے متعلقمذاکرات کے لیے امریکا بہت جلد ایک خصوصی ایلچی روس روانہ کرنے والا ہے، تاکہ تشدد کی جاری کارروائیوں پر بات چیت کی جا سکے۔ سرگئی لاروف نے کہا کہ امریکی سفارت کار کرٹ فولکر اور روسی ایلچی برائے یوکرائن ولادیسلیف سرکاوف اس حوالے سے ملاقات کریں گے۔ فولکر نے گزشتہ ماہ مشرقی یوکرائن کا دورہ کیا تھا، جہاں روسی حمایت یافتہ علاحدگیگی پسند 3 برس سے یوکرائنیفوج کے ساتھ لڑتے رہے ہیں۔ اس تنازع کے دوران روس نے یوکرائن کے علاقے کریمیا کو خود میں ضم کیا اور اس لڑائی میں 10ہزارسے زائد افراد ہلاک ہوئے۔