تہران (انٹرنیشنل ڈیسک) ایرانی صدر حسن روحانی نے منگل کی صبح نئی ملکی کابینہ کا اعلان کیا لیکن کابینہ میں عورتوں اور نوجوانوں کی مکمل عدم موجودگی کے سبب ان کے اس فیصلے پر فوراً ہی اصلاح پسندوں نے تنقید کا سلسلہ شروع کر دیا ہے ۔ ایران میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کئی لوگ صدر حسن روحانی کو یہ کہتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ انہوں نے اسی سال مئی میں منعقدہ صدارتی الیکشن میں اصلاح پسندوں کی حمایت حاصل کی تھی تاہم اب وہ زیادہ تنوع کے اپنے وعدوں سے مکر رہے ہیں۔ مہدی کاروبی نامی زیر حراست اپوزیشن رہنما کے صاحب زادے محمد کاروبی نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں لکھا ہے کہ پچھلے 2 انتخابات میں سامنے آنے والی عوامی رائے کی اس نئی کابینہ میں کوئی نمائندگی نہیں۔ انہوں نے مزید لکھا کہ جب تک کابینہ میں اقلیتوں اور عورتوں کی نمائندگی نہیں، تو مساوات کی بات کیسے کی جا سکتی ہے ؟ 68 سالہ اعتدال پسند حسن روحانی نے بطور ملکی صدر اپنی دوسری مدت کے لیے گزشتہ ہفتے کے روز حلف اٹھایا تھا۔ انہوں نے اسی سال مئی میں منعقدہ صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کی تھی۔ صدر روحانی نے گزشتہ روز اپنی نئی کابینہ کے ارکان کا اعلان کیا، جس میں ایک بھی عورت شامل نہیں۔ علاوہ ازیں ناقدین کا کہنا ہے کہ نئی کابینہ میں عورتوں کے علاوہ ملک میں بسنے والی اقلیتوں اور نوجوان نسل کی بھی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق منگل کو اعلان کردہ کابینہ میں کوئی بڑی غیر متوقع تبدیلی سامنے نہیں آئی۔ روحانی کے دور اقتدار میں مغربی ممالک کے ساتھ روابط میں بہتری کے لیے کردار ادا کرنے والے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اور وزیر برائے تیل بیجان نمدار زنگنے کو ان کے عہدوں پر برقرار رکھا گیا ہے۔