انقرہ (انٹرنیشنل ڈیسک) ترکی میں گزشتہ برس کی ناکام فوجی بغاوت کا مرکزی ملزم اس وقت جرمنی میں پناہ لیے ہوئے ہے اور انقرہ نے برلن سے اس کی حوالگی کا بہ ضابطہ مطالبہ کر دیا ہے۔ ترک حکومت کا کہنا ہے کہ یہ مطلوب ملزم جرمنی میں دیکھا گیا ہے۔ خبررساں اداروں کے مطابق تُرک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے بدھ کے روز صحافیوں کو بتایا ہے کہ انقرہ حکومت نے برلن حکومت کو بہ ضابطہ طور پر درخواست دی ہے کہ مفرور پروفیسر عادل اوکسوز کو ان کے حوالے کیا جائے۔ ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم نے جرمنی سے درخواست کی ہے کہ اس شخص کو تلاش کیا جائے اور اسے گرفتار کرکے ہمارے حوالے کیا جائے۔ ترک میڈیا کے مطابق ترکی کو مطلوب عادل اوکسوز کو جرمن شہروں فرینکفرٹ اور اولم میں دیکھا گیا ہے، جب کہ انہیں جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ نے عارضی رہایش کا اجزات نامہ بھی فراہم کر رکھا ہے۔ واضح رہے کہ عادل اوکسوز دینیات کے پروفیسر ہیں اور امریکا میں جلاوطن ترک مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کے پیروکار ہیں۔ ترک حکام کے مطابقاوکسوز فضائیہ میں ایک غیر فوجی امام تھے اور فضائیہ نے ہی ترک پارلیمان پر بم باری کی تھی۔ یاد رہے کہ ترکی کی ناکام فوجی بغاوت میں فضائیہ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ انقرہ حکومت کے مطابق گزشتہ برس کی ناکام فوجی بغاوت کے پیچھے عادل اوکسوز کا مرکزی کردار تھا۔ انہیں بغاوت کے فوری بعد گرفتار کرلیا گیا تھا، تاہم گولن تحریک سے ہی وابستہ ایک جج نے انہیں 2 روز بعد رہا کر دیا تھا۔ اس کے بعد اوکسوز ترکی سے فرار ہوگئے تھے اور تب سے ترکی نے انہیں مطلوب ترین افراد کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔ ترک حکام نے ایک ایسی وڈیو بھی جاری کی تھی، جس میں عادل اوکسوز اور ان کے مبینہ ساتھی تاجر کمال باتماز کو ناکام بغاوت سے 2 روز قبل استنبول ائرپورٹ پر اترتے دیکھا جاسکتا ہے۔ حکام کے مطابق یہ دونوں افراد امریکا میں مقیم فتح اللہ گولن سے ملاقات کرکے واپس پہنچے۔