سی پیک مزید حقائق

240

zr_masoodanwarمعاملات صرف اتنے ہی سادہ نہیں ہیں کہ سی پیک کے تحت شروع کیے گئے تمام پروجیکٹوں پر تقریباً 6.5 فی صد سود اور 7 فی صد انشورنس پریمیم ادا کیا جائے گا۔ یہ ملا کر 13.5 فی صد بنتا ہے۔ یہ تو سرمایہ کاری پر ادا کیا جانے والا سود اور انشورنس ہے۔ حکومت پاکستان نے تمام منصوبوں پر 17 فی صد سالانہ یقینی ادائیگی کا معاہدہ کیا ہوا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین کے مطابق اگر ہر پروجیکٹ کی سرمایہ کاری میں پاکستانی حصہ داری کو 40 فی صد تصور کیا جائے تو پاکستان کو ہر برس 2.4 ارب ڈالر کی ادائیگی چینی بینکوں اور کمپنیوں کو کرنا ہوگی۔ اگر ایک ڈالر کو 106 روپے کا تسلیم کرلیا جائے تو یہ رقم بنتی ہے 2 کھرب 54 ارب 40 کروڑ روپے۔ یہ تو اس وقت ہے جب سرکاری اعلانات کو مان لیا جائے کہ 17 فی صد کی سالانہ ادائیگی ہے اور پاکستانی حصہ داری 40 فی صد ہے۔ مگر حقائق اس سے بھی زیادہ تلخ ہیں۔ تمام ہی پروجیکٹوں میں پاکستانی سرمایہ کاری 25 فی صد سے زائد نہیں ہے اور ان پروجیکٹوں پر 17 فی صد کے بجائے 34.5 فی صد تک یقینی ادائیگی کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ اس صورت میں ہر سال پاکستان کو 5 ارب ڈالر یا 530 ارب روپے سالانہ کی ادائیگی کرنا ہوگی۔



ان میں سے اکثر پروجیکٹ خسارے میں چلنے والے ہیں۔ مثلاً لاہور کا اورنج ٹرین کا منصوبہ۔ یہ منصوبہ کما کر نہیں دے گا بلکہ جنگلا بس سروس کی طرح قومی معیشت کو چوستا رہے گا۔ اسی طرح جتنی بھی سڑکیں تعمیر کی گئی ہیں، یہ بھی براہ راست کما کر نہیں دیں گی اور ان پر حاصل کیا گیا قرض خود ہی واپس کرنا پڑے گا۔ ہر پروجیکٹ کی ایک طبعی عمر ہوتی ہے۔ جب تک قرض بے باق ہوگا اس وقت تک ان سڑکوں کی طبعی عمر پوری ہوچکی ہوگی۔
لے دے کر پاور پروجیکٹ بچتے ہیں جو اپنے اوپر حاصل کیے قرض کو واپس کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ وہ بھی صرف اس لیے کہ سرکار نے عوام کو پاور کمپنیوں کے حوالے کررکھا ہے کہ وہ چاہے جتنا ٹیرف وصول کریں اور چاہے جتنی اوور بلنگ کریں۔ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ صارفین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر اربوں روپے ماہانہ کا منافع بنانے والی یہ پاور کمپنیاں صرف اپنا تو قرض ادا کریں گی مگر دیگر پروجیکٹوں پر حاصل کیا گیا قرض اور سود ادا نہیں کریں گی کیوں کہ یہ ساری کی ساری پرائیویٹ چینی کمپنیاں ہیں جو کیے گئے یک طرفہ معاہدوں کے تحت 80 فی صد تک منافع بغیر کسی ٹیکس کی ادائیگی کے سمیٹ کر باہر کے بینکوں میں جمع کروا دیں گی۔



اب دوبارہ سے صورت حال کو دیکھیں۔ یہ دو دھاری تلوار ہے۔ ایک طرف پاکستانی عوام کو 1802 ارب روپے سالانہ ہر صورت میں اپنے پلّے سے اد ا کرنے ہیں۔ دوسری طرف اس کی صنعت خصوصی اکنامک زون بنا کر چینی صنعت کاروں کے حوالے کر دی گئی ہے۔ زرعی فارم کے منصوبوں کے تحت زراعت بھی چین کے حوالے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جو چینی کمپنیاں اس وقت پاکستانی مزدوروں اور ہنرمندوں کو ان پروجیکٹوں میں ملازمت دینے پر راضی نہیں ہیں جو پاکستان بھاری شرح سود پر قرض حاصل کرکے خود تعمیر کروا رہا ہے تو جب یہ کمپنیاں صنعت و زراعت میں اپنے منصوبے لے کر آئیں گی تو کیا گل کھلائیں گی؟
ایک ایسی معیشت جو اپنے روزمرہ کے اخراجات کے لیے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے سامنے گڑگڑاتی رہتی ہو، جس کی برآمدات روز کم ہورہی ہوں اور درامدات کا بل آسمان پر جارہا ہو، زراعت و صنعت تباہ کردی گئی ہوں۔ وہ کس طرح سے 5 ارب ڈالر سالانہ کی ادائیگی کرسکے گی۔ یقینی طور پر نادہندگی کا عفریت منہ کھولے سامنے کھڑا ہے اور نادہندہ ہونے کا واضح مطلب سری لنکا کی ہمبنٹوٹا کی بندرگاہ کی طرح گوادر کی بندرگاہ کی چین کو حوالگی اور تاجکستان کی واخان کے ساتھ ایک ہزار مربع کلومیٹر زمین پر چین کی ملکیت کی طرح پاکستانی گلگت و بلتستان کے علاقے سے دستبرداری ہے۔



چینی قبضہ صرف ان ہی علاقوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ چینی پورے پاکستان میں قائم کیے گئے خصوصی معاشی زون کی صورت میں ہر جگہ ہوں گے۔ ان کے آنے سے پاکستانی ثقافت و تہذیب پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اس پر الگ سے خصوصی کام کرنے کی ضروت ہے۔ یہ امر کلیہ ہے کہ جو قوم معاشی طور پر مضبوط ہوتی ہے اس کی تہذیب بھی مضبوط ہوتی ہے اور جس قوم کی معیشت کمزور ہوتی ہے وہی قوم غلامی کی طرف جاتی ہے اور حکمراں قوم کی تہذیب کو فخریہ طور پر اختیار کرتی چلی جاتی ہے۔ اب ذرا چینی قوم کی موجودہ تہذیب تو دیکھیں۔ موجودہ چینی قوم ایک ایسے ماحول میں پروان چڑھی ہے جس میں اسے ایک انسانی روبوٹ کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ مروت، احسان نام کی کوئی چیز چینی قوم میں نہیں پائی جاتی۔ مقصد کے حصول کے لیے انتہائی سفاکانہ اقدام سے یہ گریز نہیں کرتے۔ یہ ابھی ایک سال قبل ہی کی بات ہے کہ دبئی کی پولیس نے ایک فلپائنی کی گمشدگی کا مسئلہ حل کیا ہے۔ پتا چلا کہ اس کے چینی دوستوں کے ساتھ جھگڑا ہوگیا تھا اور یہ چھ چینی اس فلپائنی کو کاٹ کر کھا گئے۔ چینیوں کے ہاں حلال و حرام کا تصور پاکستان سے یکسر مختلف ہے۔ ان کے ہاں حرمت کا تصور بالکل مختلف ہے۔ اب چینی تہذیب کی بالادستی کی صورت میں پاکستان میں کیا کایا کلپ ہوگی، اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔



تعجب اس بات پر نہیں ہے کہ چینی ساہوکار یا بینکار کس طرح پاکستان میں پیش قدمی کرہے ہیں۔ تعجب تو پاکستانی حکمرانوں پر ہوتا ہے کہ انہوں نے کس طرح چند ارب ڈالر کے کمیشن پر پوری قوم کو فروخت کردیا۔ تعجب تو پاکستانی معیشت دانوں پر ہوتا ہے جو حقائق پر گفتگو کرنے کے بجائے اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں پھنسائے ہوئے ہیں۔ تعجب پاکستانی حزب مخالف پر ہوتا ہے کہ اس پر گفتگو کے بجائے منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھی ہے۔ تعجب پاکستانی میڈیا ہاؤسز پر ہوتا ہے کہ کس طرح چند لاکھ کے اشتہارات کے لیے پاکستانی قوم کی فروخت میں شامل باجا ہے۔ تعجب بیوروکریسی پر ہوتا ہے کہ حقائق عوام کے سامنے لانے کے بجائے اس چھپانے میں کوشاں ہے۔
جان لیجیے کہ کرنسی نوٹ جلا کھانا پکانا تفاخر کی بات ضرور ہوگی مگر کہیں سے بھی عقل مندی نہیں۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔