غلامی کی جانب سفر

262

zr_masoodanwarدوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان عملاً اتحادیوں کی غلامی میں جاچکا تھا۔ اس وقت جاپانی قوم کے دانشوروں نے سوچا کہ ایسی کیا چیز بچائی جاسکتی ہے جس کی بناء پر وہ اپنی آزادی کو کسی طور پر بچا سکیں۔ اتفاق رائے سے طے پایا کہ تعلیم ہی ایسی چیز ہے جس پر توجہ رکھی جائے تو غلامی کے موجودہ گرداب سے بچا جاسکتا ہے۔ اس فیصلے کے بعد شعوری طور پر نئی نسل کی تعلیم پر توجہ مرکوز کرلی گئی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ایٹمی حملوں سے مغلوب کیا جانے والا زخمی اور دلبرداشتہ جاپان کس طرح تیزی کے ساتھ چند ہی برسوں میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی پہلی صف میں کھڑا تھا۔ جاپان پر ایٹم بم برسا کر اسے فتح کرنے والا امریکا آج اسی زخمی اور مضروب جاپان کے کھربوں ڈالر کا مقروض ہے۔ یہ سب صرف اور صرف تعلیم کی بناء پر ہی ممکن ہوسکا تھا۔ یہ تعلیم ہی تھی جس کی بناء پر جاپانی اپنی تہذیب و اقدار کو بھی بچانے میں کامیاب ہوئے۔ آج جاپانی فخریہ طور پر اپنی تہذیب اور رہن سہن کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر پر اپنا قبضہ مکمل کیا تو اس وقت برصغیر میں علمی ماحول اپنے جوبن پر تھا۔ انگریز جانتا تھا کہ جب تک تعلیم سے مسلمانوں کا رشتہ توڑا نہیں جائے گا، اس وقت تک مسلمانوں کے گلے میں طوق غلامی نہیں ڈالا جاسکتا۔ اس کے لیے قابض انگریز نے خاص طور سے میکیاولی کو انگلستان سے بلا کر یہ ٹاسک سونپا اور میکیا ولی نے جو سفارشات پیش کیں، ان پر من و عن عمل بھی کیا۔



مسلمانوں کو جاہل رکھنے اور علم سے رشتہ توڑنے کے لیے انگریز نے سب سے پہلے تعلیم کا ذریعہ ابلاغ تبدیل کیا اور مروج فارسی و عربی سے اسے اردو اور انگریزی میڈیم میں یک دم تبدیل کردیا۔ تاہم مسلمان ایک متبادل ذریعہ تعلیم مدرسوں اور گھروں میں دی جانے والی تعلیم کے ذریعے اپنا کچھ سرمایہ بچانے میں کامیاب رہے جس کے نتیجے میں پہنچے والے نقصان کی شدت کم رہی۔
پاکستان بننے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جنگی بنیادوں پر تعلیم کے شعبے پر توجہ دی جاتی اور دس سال کے اندر اندر تعلیم کے شعبے میں انقلاب لے آیا جاتا، اس وقت کی لیڈرشپ نے بھی اس سے اغماض برتا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ آزادی کے باوجود انگریز طرز حکومت کا تسلسل تھا۔ پوری بیوروکریسی انڈین سول سروس سے تربیت یافتہ تھی اور اسی کو اب تک جاری رکھا گیا ہے۔ آزادی کے بعد بھی پاک فوج کا سربراہ جنرل گریسی تھا اور ابھی تک اس کا تسلسل جاری ہے۔ رہے پاکستانی سیاست دان تو وہ کھمبیوں کی طرح اُگ آئے تھے اور ان کا کوئی وژن نہ اُس وقت تھا اور نہ اب ہے۔



پاکستان بننے کے وقت میں اور اب میں صرف اور صرف ایک فرق ہے اور وہ ہے کرپشن کا۔ پہلے کرپشن ایک گالی سمجھی جاتی تھی اور اب اسے حق سمجھ کر آرٹ کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ جو جس طرح سے چاہے قوم کو لوٹے اور ملک کو فروخت کردے، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ انصاف کے دروازے عدلیہ پر جائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کرپشن کا مرض کس طرح ناقابل علاج ہوچکا ہے۔ جج بننے کے لیے پہلے وکالت کی پریکٹس ضروری ہے۔ ہر وکیل جانتا ہے کہ کس طرح پیسے دے کر تاریخ لی جاتی ہے۔ کاغذات کی ایک ڈپارٹمنٹ سے لے کر دوسرے ڈپارٹمنٹ تک منتقلی کے لیے کس طرح رشوت کے پہیے لگائے جاتے ہیں اور فیصلوں کی نقول حاصل کرنے کے لیے کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ جب یہی وکیل جج بنتے ہیں تو یہ سب بھول چکے ہوتے ہیں اور باہر والوں کی کرپشن کے خلاف فیصلے دے رہے ہوتے ہیں۔ ایک منٹ کو ہم فرض کر لیتے ہیں کہ کوئی جج بدعنوان نہیں ہے۔ حالانکہ ایسا ہے نہیں، پھر بھی فرض کرلیتے ہیں۔ تو بھی ان چیف جسٹس صاحبان کو اپنے گھر کا حال معلوم ہے۔ تو پھر کرپشن کے انسداد کی ابتداء گھر سے کیوں نہیں؟ سب سے پہلے ججوں کے لائف اسٹائل، ان کے بینک بیلینس، بچوں کی فیسوں وغیرہ کا ان کی تنخواہوں سے موازنہ کیوں نہیں؟



خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ اصل موضوع تھا تعلیم۔ تعلیم کا شعبہ تو پہلے دن سے ہی ترجیحات میں شامل نہیں تھا مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا رہی سہی تعلیم کے معیار کو کرپشن کی دیمک نے چاٹنا شروع کردیا۔ تعلیم کے شعبے میں کسی بھی حکومت کی ترجیحات کو ہم تعلیم کے لیے مختص کرنے والے بجٹ سے دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں کُل بجٹ کا تعلیم کے لیے چار فی صد مختص کیا جاتا ہے۔ یہی وہ پیمانہ ہے جس سے ہم حکومت کی ترجیحات کو جان اور سمجھ سکتے ہیں۔ پاکستان میں کبھی بھی تعلیم کے لیے مختص کردہ رقم ڈیڑھ فی صد سے زائد نہیں رہی۔ یہ ساری کی ساری رقم اساتذہ اور ملازمین کی تنخواہوں وغیرہ میں ہی ختم ہوجاتی ہے اور کسی نئے ادارے کے قیام یا اعلیٰ تعلیم کے لیے کسی پروجیکٹ کے لیے ایک دھیلا نہیں بچتا۔ یہ تو المیہ ہے ہی کہ حکومت تعلیم کے پھیلاؤ اور اس کے فروغ کے لیے نئے تعلیمی ادارے قائم کرنے سے شعوری طور پر گریزاں ہے۔
اس وقت صرف اور صرف کرپشن کے لیے موجودہ تعلیمی اداروں کو بھی کیش جمع کرنے کی دکان میں تبدیل کردیا گیا اور تعلیم کو سب سے آخری درجے میں ڈال دیا گیا۔



آج کل سوشل میڈیا پر ایک لطیفہ مقبول ہے۔ اس کے مطابق ایک صاحب اپنے بچے کو لے کر پرنسپل کے حضور کھڑے ہیں۔ پرنسپل ان صاحب کو بتا رہی ہیں کہ اسکول کا یونیفارم، جوتے، کورس کی کتابیں سب اسکول سے ہی لینا پڑیں گی۔ وہ صاحب ڈرتے ڈرتے پوچھتے ہیں اور تعلیم۔ اس پر پرنسپل شان بے نیازی سے جواب دیتی ہیں کہ اس کے لیے آپ پرائیویٹ ٹیوشن لگوا لیجیے گا۔ یہ لطیفہ نہیں ہے بلکہ آج کے دور میں امر واقعہ ہے۔
اس المیے سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ تعلیم کی فراہمی تو حکومت کی جانب سے دور کی بات رہی، اب سرکار نے تعلیم کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تباہ کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ اس موضوع پر گفتگو آئندہ کالم میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔