غلامی کی جانب سفر

281

zr_masoodanwarحصہ آخر
جو حربہ اسکولوں کے ساتھ آزمایا گیا تھا وہی کام کالجوں کے ساتھ بھی کردیا گیا یعنی کالجوں کو فنڈز کے اجراء پر غیر رسمی پابندی۔ اب بچے کالجوں میں صرف انرولمنٹ کے لیے داخلہ لیتے اور کوچنگ سینٹر آباد ہونے لگے۔ آہستہ آہستہ نجی شعبے میں کالج قائم ہونے لگے اور بھاری فیسوں کے باوجود خوب چلنے بھی لگے۔ ابھی تک جامعات آباد تھیں کہ ان کے پاس قابل اور محنتی اساتذہ بھی تھے اور نجی شعبہ ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔ تاہم وہی آزمودہ نسخہ یہاں پر بھی کام میں لایا گیا یعنی گرانٹ میں کٹوتی۔ اب اگر پاکستان اسٹیل کی گیس ہی سرکار بند کردے اور لوہا بنانے والی چمنی بلاسٹ فرنیس ٹھنڈی کردی جائے تو تمام تر حب الوطنی، ہنر مندی اور کام کی بہترین صلاحیت کے باوجود کوئی کس طرح پیداوار دے سکتا ہے۔ یہی کام سرکار میں بیٹھے ملک دشمن ہر جگہ کرتے رہے۔ اب سرکاری جامعات کا بھی وہی حال کیا جارہا ہے جو اسکولوں کا کیا جاچکا ہے۔ یعنی گرانٹ کم سے کم، اساتذہ کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بھی فنڈ موجود نہیں ہیں۔ کلیدی مناصب پر نااہل افراد کی تقرریاں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ کسی ڈپارٹمنٹ کا نتیجہ وقت پر جاری کیوں نہیں ہوا۔



سمجھنے کی بات یہ ہے کہ گرانٹ میں کمی بھی سرکار کے کھاتے میں ہے اور نااہل فرد کی بھرتی، تقرر و تعیناتی بھی سرکاری انتظام ہے۔ یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا۔ اس سے یہ تو ہوا کہ تعلیم اب صرف ایک طبقے کا حق ٹھیری اور خوشحال طبقے تک محدود کردی گئی۔ اگر ایک خاندان کے چار بچے ہیں تو اسکول میں فی بچے کا خرچ دس ہزار روپے ماہانہ تک ہے۔ اس طرح ایک خاندان پر چالیس ہزار روپے ماہانہ کا اضافی بوجھ مجرمانہ خاموشی سے ڈال دیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس بوجھ میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اب اگر میڈیکل کی تعلیم دلانی ہے تو فی بچہ یہ خرچ بارہ لاکھ روپے سالانہ تک ہے۔ اس سب سے یہ تو ہوا کہ قوم سے تعلیم کا بنیادی حق چھین لیا گیا مگر پاکستانی قوم کو منشاء کے مطابق ڈھالنے کا مقصد پورا نہیں ہوا۔



اس کے لیے نصاب میں بنیادی تبدیلی ضروری تھی اور یہ بنیادی تبدیلی امتحانی بورڈوں کو ناکام بنائے بغیر ممکن نہیں تھی۔ اس کے لیے پہلے مرحلے میں پاکستانی تعلیمی معیار کے خلاف ماحول بنایا گیا۔ حالانکہ ڈاکٹر عبدالقدیر سے لے کر ڈاکٹر عطاء الرحمٰن تک سب ان ہی پیلے اسکولوں سے فارغ التحصیل ہیں اور نابغہ روزگار ہیں مگر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس کے خلاف مہم چلائی گئی۔ اس کی وجہ سے کیمبرج سسٹم کے تحت داخلے ہونے لگے۔ حالانکہ پاکستان میں ہونے والا کیمبرج طریقہ امتحان اب دنیا بھر میں متروک ہوچکا ہے مگر یہاں پر فی پرچہ سیکڑوں پاؤنڈ فیس وصول کی جاتی ہے۔ ایک بچے پر اس نظام کے تحت پڑھنے پر ایک لاکھ روپے ماہانہ سے زائد خرچ آتا ہے۔ چونکہ یہ مہنگا طریقہ امتحان ہے اس لیے اس میں پاکستان کی ساری آبادی نہیں آسکتی ہے۔



اس کے لیے دوسرا طریقہ ڈھونڈا گیا۔ وہ تھا پاکستان میں آغا خان فاؤنڈیشن کے تحت امتحانی بورڈ کا قیام۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اس بورڈ کے قیام کے لیے 2003 میں آغا خان بورڈ کو 45 لاکھ ڈالر کی خصوصی امداد فراہم کی گئی۔ مگر بات اب بھی نہیں بن رہی تھی کیوں کہ پاکستانی طلبہ ابھی تک پاکستانی بورڈوں سے امتحان بھی دے رہے تھے اور بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں داخلے بھی حاصل کررہے تھے۔ اس کے لیے اب پھر سے نااہل اور بدعنوان اشخاص کی بورڈوں میں تعیناتی شروع کردی گئی۔
اس کھیل میں سندھ سب سے بازی لے گیا کہ پورے صوبے میں کسی بھی بورڈ میں تینوں اہم اترین اسامیوں یعنی چیئرمین، ناظم امتحانات اور سیکرٹری کی اسامی پر کوئی بھی مستقل فرد تعینات نہیں ہے۔ سب قائم مقام ہیں اور ان کی اہلیت سوالیہ نشان ہے۔ کراچی کا اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کارکردگی میں سب سے آگے تھا تو اس کے لیے خصوصی کام کیا گیا۔



اس کے چیئرمین انوار احمد زئی کو پہلے یہاں سے میٹرک بورڈ میں ٹرانسفر کیا گیا اور اس کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ ان پر الزام یہ تھا کہ میر پور خاص بورڈ کے قیام کے وقت انہوں نے ایمرجنسی میں فوری طور پر چار افراد کو ملاز م رکھ لیا تھا۔ میرپورخاص میں ایک نیا بورڈ قائم کرنے اور اس بین الاقوامی معیار کے طور پر چلانے کے انعام کے طور پر کوئی ایوارڈ دینے کے بجائے انہیں اخلاقی مجرموں کی طرح پابند سلاسل رکھا گیا اور سرکار کی طرف سے ان کی کردار کشی کی باقاعدہ مہم چلائی گئی۔ ایسے صوبے میں جہاں پر اربوں روپے کی کرپشن کرنے والے ڈاکٹر عاصم حسین اور شرجیل میمن آزاد ہوں، وہاں پر انوار احمد زئی مجرم تھے۔
اس کے ناظم امتحانات عمران چشتی کو ہٹادیا گیا اور سرکار کی جانب سے مقدمات میں پھنسا دیا گیا۔ اب وہاں پر ایک ایسا شخص قائم مقام ناظم امتحانات ہے جس کو اس کام کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ گزشتہ امتحانات میں پہلی مرتبہ انٹر کے امتحانات میں کراچی میں 14 پرچے آؤٹ ہوئے مگر کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ مروجہ طریقے کے برخلاف کاپیاں گھروں پر جانچی گئیں ہیں اور ٹیبولیشن رجسٹر بھی گھروں پر پہنچا دیے گئے ہیں۔ اس کے بعد انٹر کے نتیجے پر کون اعتبار کرے گا؟ اس کے بعد کا دوسرا مرحلہ تیار ہے یعنی اربوں روپے کی کرپشن کے الزام میں ماخوذ ڈاکٹر عاصم حسین کو نجی شعبے میں امتحانی بورڈ قائم کرنے کی اجازت دی جارہی ہے۔



سندھ کے تعلیمی بورڈز کو تباہ کرنے کے لیے انہیں مالی طور پر محتاج کرنے کی ضرورت بھی تھی۔ چونکہ انہیں گرانٹ نہیں دی جاتی۔ اس لیے کہا گیا کہ سندھ کے طلبہ کی مفت انرولمنٹ ہوگی۔ اب سندھ حکومت خود بھی فنڈ نہیں دے گی اور دے گی تو انتہائی کم۔ بورڈوں کو آمدنی نہیں ہوگی تو ان کی کارکردگی تو متاثر ہوگی ہی۔ چند برسوں میں عوام خود نئے بورڈوں سے منسلک ہوچکی ہوگی اور پاکستان کی نئی نسل کو ذہنی غلام بنانے کا مشن مکمل ہوچکا ہوگا۔
دوبارہ سے دیکھیے۔ کیمبرج بورڈ، آغاخان بورڈ اور اب ڈاکٹر عاصم حسین کا بورڈ۔ اب نصاب یہ بورڈ طے کریں گے جسے طلبہ پڑھنے پر مجبور ہوں گے۔ اس کے بعد تحریک آزادی، اسلام، حب الوطنی کے حوالے سے کیا ذہن سازی ہوگی، اس کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اب پاکستانی طلبہ کا ہیرو ٹیپو سلطان نہیں ہوگا بلکہ انگریز ہوگا۔ اب محمد بن قاسم درانداز ٹھیرے گا اور راجا داہر مظلوم فرزند زمین جس نے اپنا دفاع کرنے کی کوشش کی۔



سمجھ لیجیے کہ جس روز یہ قوم ذہنی طور پر غلام ہوگئی اس کے بعد کسی اور فوج کشی کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے لیے ڈالروں کی بارش ہورہی ہے۔ دشمن تو جو کچھ کررہا ہے وہ درست ہی کررہا ہے مگر گھر کے اندر صفائی کی ضرورت ہے۔ تعلیمی اداروں کے فنڈ روکنے والوں کی تطہیر، نااہل انتظامیہ کی تعیناتی اور بھرتی کرنے والوں کی تطہیر، تعلیمی اداروں میں اہم مناصب کو خالی رکھنے والوں کی تطہیر، ان سب کے خلاف کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ معاشرتی انقلاب کی پہلی ضرورت افراتفری پھیلانا ہوتا ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ سے کون پوچھے گا کہ تعلیمی بورڈ کیوں جان بوجھ کر تباہ کیے جارہے ہیں اور نیا تعلیمی بورڈ کیوں؟
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔