بھارت: وفاقی اور ریاستی حکومتوں پر عدالت کی تنقید

166
نئی دہلی: بھارت کی ریاستوں ہریانہ اور پنجاب میں ہنگاموں اور ہلاکتوں کے اگلے روز پولیس اور فوج نے علاقوں کا کنٹرول سنبھال رکھا ہے

نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) بھارت کی ایک عدالت نے وفاقی حکومت اور ریاستی حکام کو ہریانہ کی شمالی ریاستوں اور پنجاب میں ہونے والے تشدد سے نمٹنے میں ناکامی پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ہریانہ اور پنجاب کی ہائی کورٹ نے سنیچر کو ایک بیان میں کہا ہے کہ وفاقی اور ریاستی حکومتوں کا ردعمل سیاسی سرینڈر کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ واضح رہے کہ بھارت کے قصبے پنچکلا میں ایک خصوصی عدالت کی جانب سے ڈیرا سچا سودا نامی تنظیم سے تعلق رکھنے والے گرو گرمیت رام کو جنسی زیادتی کے معاملے میں مجرم قرار دینے کے بعد کشیدگی پائی جاتی ہے۔ علاقے میں مزید تشدد کو روکنے لیے کچھ علاقوں میں فوج کو بھی تعینات کر دیا گیا ہے۔ بھارت میں جمعہ کو ایک عدالت نے گرو گرمیت رام کو جنسی زیادتی کے ایک معاملے میں مجرم قرار دیا تھا جس کے بعد سے پرتشدد ہنگاموں میں اب تک کم از کم 31 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔



گرو گرمیت رام پر 15 برس پہلے 2 خواتین کے ساتھ ریپ کا الزام تھا۔ ان کی سزا کا اعلان پیر کو کیا جائے گا۔ وزارت داخلہ کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ان واقعات میں اب تک تقریباً 31 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے، جب کہ مقامی اخبارات نے یہ تعداد اس سے زیادہ بتائی ہے۔ بیان کے مطابق سیکورٹی فورسز سمیت 250 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں، جن کا مختلف اسپتالوں میں علاج چل رہا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق پولیس، نیم فوجی دستوں اور فوج نے مشترکہ طور پر ڈیرا سچا سوا کے آشرم کا محاصرہ کر کے کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ خبروں کے مطابق انتظامیہ کو اس بات کا خدشہ ہے کہ جب پیر کو عدالت گرو کو سزا سنائے گی تو مزید تشدد کا خطرہ ہے، اس لیے ڈیرے میں موجود گرو کے تقریباً ایک لاکھ حامیوں کو وہاں سے نکالنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس سے قبل انتظامیہ نے لاؤڈ اسپیکروں سے اعلان کیا تھا کہ ڈیرے میں موجود لوگ باہر نکل کر اپنے گھروں کو چلے جائیں، لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا جس کے بعد کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔



مقامی صحافی رابن سنگھ کا کہنا ہے کہ فوج کی تعیناتی کے بعد سے علاقے میں حالات قابو میں ہیں، لیکن یہ سکون صرف دیکھنے میں لگتا ہے اور حقیقت میں حالات بہت کشیدہ ہیں۔ اس دوران تشدد کے واقعات دہلی تک پہنچ گئے ہیں جہاں ہفتے کی صبح گرو کے حامیوں نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا اور بسوں میں آگ لگائی۔ دہلی کی انتظامیہ نے کئی علاقوں میں دفعہ 144 کا اعلان کر دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ان جھڑپوں میں میڈیا کو بھی نشانہ بنایا گیا اور بعض ٹی وی چینلوں کی گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔ ان واقعات میں کئی صحافی زخمی ہوئے ہیں، جب کہ بعض اب تک لاپتا بتائے جا رہے ہیں۔ عدالت کے اس فیصلے سے ریاست ہریانہ اور پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جہاں کئی اضلاع میں کرفیو لگایا گیا ہے، جب کہ دہلی، اترپردیش اور راجستھان کے بھی کچھ علاقے اس کی زد میں ہیں۔ حکام نے ایسے کئی علاقوں میں ریڈ الرٹ جاری کیا ہے اور ایسے بیشتر مقامات پر دفعہ 144 نافذ ہے۔ اس سے قبل عدالتی فیصلے کے بعد فوجی اہل کاروں نے گرمیت رام کو حفاظتی تحویل میں لے لیا تھا،



جس کے بعد انہیں روہتک کی مقامی جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔ بھارت کے وزیر اعظم مودی نے ٹوئٹر کے پیغام میں کہا کہمیں نے قومی سلامتی کے مشیر اور ہوم سیکرٹری کے ساتھ حالات کا جائزہ لیا ہے۔ میں حکام سے اپیل کرتا ہوں کہ حالات معمول پر لانے کے لیے دن رات ایک کر دیں اور تمام ضروری مدد لوگوں تک پہنچائیں۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں پنچکلا میں ہوئی ہیں جہاں عدالت نے گرو گرمیت کو مجرم قرار دیا تھا۔ حکام نے پنچکلا، فیروز پور، بھٹنڈا اور مانسا میں کرفیو نافذ کر دیا ہے، جب کہ فتح آباد اور فرید کوٹ میں ریڈ الرٹ کا اعلان کیا گیا ہے۔ پولیس نے مختلف علاقوں سے بہت سے لوگوں کو حراست میں بھی لیا ہے۔ رابن سنگھ کے مطابق فیصلہ آنے کے بعد گرمیت رام کے حامیوں نے گاڑیوں کے شیشے توڑ ڈالے اور سرکاری عمارتوں اور میڈیا کی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ پنجاب اور ہریانہ دونوں ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے گرو گرمیت کے حامیوں سے امن اور امان برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔



کیپٹن امریندر سنگھ نے کہا ہے کہ ہم کسی کو ریاست میں ماحول خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ سیکورٹی اہل کاروں نے مشتعل افراد پر قابو پانے کے لیے آنسو گیس اور آبی توپ استعمال کی ہے۔ ادھر ڈیرا سچا سودا کے ترجمان ڈاکٹر دلاور انشا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہوا اور ہم اپیل کریں گے۔ ہمارے ساتھ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ ڈیرا سچا سودا انسانیت کے فلاح کے لیے ہے۔ گرو گرمیت ایک سو گاڑیوں کے قافلے میں فیصلہ سننے کے لیے ہریانہ کے علاقے سرسا میں واقع اپنے آشرم سے عدالت آئے تھے۔ فیصلے سے قبل گرو گرمیت کے 2 لاکھ سے زیادہ حامی پنچکلا پہنچے تھے، جب کہ اس موقع پر حکومت نے پولیس اور فوج کے ہزاروں اہل کاروں کو امن و امان برقرار رکھنے کے لیے تعینات کیا ہے۔