خالد کھرل بھی رخصت ہوئے

346

zc_Mian Muneerپاکستان کی سیاست کے بڑے اور کسی حد تک نمایاں کردار ایک ایک کرکے رخصت ہو رہے ہیں‘ پیپلزپارٹی کے سابق رہنماء خالد کھرل بھی رخصت ہوئے‘ وہ پیپلزپارٹی کی دوسری حکومت میں بے نظیر بھٹو کے وزیر اطلاعات تھے وہ لکھیرا کھرل کمالیہ میں پیدا ہوئے‘ 1963 میں انہوں نے سول سروس جوائن کی‘ وہ پنجاب میں محکمہ خوراک میں رہے‘ ڈی جی خان میں پولیٹیکل ایجنٹ رہے اور بھٹو دور میں لاڑکانہ کے کمشنر تھے‘ ضیاء دور میں ابوظہبی چلے گئے اور جلاوطنی کی زندگی گزاری‘ وہ پیپلزپارٹی کے ساتھ رہے‘ تاہم کچھ اختلافات کے باعث پارٹی چھوڑ دی اور تحریک انصاف میں شامل ہوگئے تھے لیکن حال ہی میں فیصل صالح حیات کے ساتھ دوبارہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے تھے‘ وہ بے نظیر بھٹو کے دو نوں ادوار میں بہت اہم سیاسی پوزیشن پر رہے آخری بار بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت میں وہ وزیر اطلاعات بنے۔



اگرچہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت رخصت ہوئے اکیس سال ہوچکے ہیں مگر جب سے پیپلزپارٹی کی حکومت رخصت ہوئی ہے ہر سال 14 اگست کو خالد کھرل ایک حوالے سے بہت ہی یاد آتے تھے ان دنوں ملک میں مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے مابین شدید سیاسی کشمکش تھی اور پیپلزپارٹی کی حکومت دائیں بازو والوں کے لیے کئی حوالوں سے نا قابل برداشت بھی رہی ہے۔ہر سال یوم آزادی کے موقع پر پارلیمنٹ ہاؤس میں پرچم لہرانے کی تقریب جنرل ضیاء الحق دور میں شروع ہوئی تھی اور بعد میں آنے والی ہر حکومت نے اس کی پیروی کی لیکن سیاسی کشمکش کے دور میں پیپلزپارٹی مخالف سیاسی حلقوں کی ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ پیپلزپارٹی کوئی ایسا کام نہ کرسکے جس سے عوام کے دلوں میں اس کے لیے کوئی نرم گوشہ پیدا ہونے کا ’’خطرہ‘‘ ہو یہی ہوا کہ بے نظیر بھٹو کو اپنی حکومت کے دوران اگست میں یوم آزادی کے موقع پر بارش کے باعث کھلی فضا میں تقریب کرنے کا موقع نہیں مل سکا اور اسی طرح حکومت کے آخری سال میں آنے والے یوم آزادی کی تقریب کی تیاریاں جب شروع ہونے لگیں تو خالد کھرل نے ایک بیان جاری کیا کہ ’’اس سال ہم نے اللہ سے بات کرلی ہے لہٰذا یوم آزادی کی تقریب ہوگی اور بارش نہیں ہوگی‘‘ ان کے اس بیان پر بہت لے دے ہوئی لیکن جب یوم آزادی آیا تو اس روز پہلے سے بھی زیادہ شدید بارش ہوئی۔





خالد کھرل کا نام سب سے پہلے سیاسی حلقوں میں اس وقت سامنے آیا جب 1977 کے عام انتخابات ہوئے اور لاڑکانہ سے ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں اس وقت این اے163 سے جماعت اسلامی کے امیدوار مولانا جان محمد عباسی آب وتاب کے ساتھ پاکستان قومی اتحاد کے امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اترے‘ خالد کھرل اس زمانے میں لاڑکانہ کے کمشنر ہوا کرتے تھے مولانا جان محمد عباسی کو کاغذات نامزدگی داخل کرانے سے روکنے کے لیے اغواء کرلیا گیا اور اس کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو بلا مقابلہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ ان انتخابات میں ملک میں ہل اور تلوار کا مقابلہ تھا پاکستان قومی اتحاد کا نشان ہل تھا اور پیپلزپارٹی تلوار کے نشان پر انتخابات میں حصہ لے رہی تھی‘ انتخابات میں پیپلزپارٹی اور قومی اتحاد کے مابین سخت کشیدگی تھی لیکن کسی نے اسٹیج سے اپنے کسی بھی سیاسی حریف کے لیے اوئے توئے کی آواز نہیں کسی تھی



1977 میں جب انتخابات کے لیے صدر فضل الٰہی نے اسمبلی توڑی تو اسمبلی میں ارکان کی تعداد 150 تھی لیکن انتخابات کے لیے تعداد بڑھا کر 197 کر دی گئی انتخابت ہوئے تو پیپلزپارٹی پنجاب سے107‘ سندھ سے 32‘ سرحد (کے پی کے) سے7 اور بلوچستان سے بھی 7 نشستوں پر کامیاب ہوئی‘ پاکستان قومی اتحاد نے پنجاب سے 8‘ سرحد سے 15 اور سندھ سے 11 نشستوں پر کامیابی حاصل کی‘ سندھ اور ملک بھر سے قومی اتحاد کے امیدواروں میں سب سے زیادہ ووٹ سید منور حسن نے لیے تھے لیکن پاکستان قومی اتحاد نے ان انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا پھر بھٹو حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک شروع ہوئی پیپلزپارٹی کے کسی بھی سنجیدہ رہنماء سے آج بھی اگر اس موضوع پر بات کی جائے تو اکثر کا موقف یہی ہوتا ہے کہ بھٹو نے انتخابات میں دھاندلی کرنے کا حکم یا ہدایت نہیں دی تھی یہ کام انفرادی طور پر کیا گیا جس میں سب سے زیادہ خالد کھرل‘ حفیظ چیمہ اور اختر ملک نے متحرک کردار ادا کیا۔ ڈالا‘ انتخابات کے بعد احتجاجی تحریک شروع ہوئی تو خالد کھرل کا ذکر تقریباً ہر جلسے میں ہوتا رہا‘



بلاآخر جب قومی اتحاد اور پیپلزپارٹی کی جانب سے مذاکرات شروع ہوئے تو مفتی محمود‘ پروفیسر غفور احمد اور نواب زادہ نصراللہ خان قومی اتحاد کی جانب سے اور پیپلزپارٹی کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو‘ کوثر نیازی اور حفیظ پیرزادہ ایک دوسرے کے روبرو بیٹھے ایک یا ڈیڑھ ماہ کے بعد دونوں فریق معاہدے پر متفق ہوگئے تاہم اصغر خان‘ سردار شیر باز خان مزاری اور بیگم نسیم ولی خان نے معاہدے پر اعتراضات اٹھائے اور قومی اتحاد کی جانب سے نو مزید نکات معاہدے میں شامل کرنے کے لیے دے دیے جس سے کچھ نئی کشیدگی پیدا ہوئی اور اسی دوران بھٹو اپنے ساتھیوں یوسف بچ‘ رفیع رضا اور کوثر نیازی کے مشورے پر بیرون ملک چلے گئے اور یوں معاہدے پر دستخط ہونے سے رہ گئے اور معاہدے کا فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا اور ملک میں مارشل لا لگ گیا۔