بغداد (انٹرنیشنل ڈیسک) عراقی فوج ایک چھوٹے سے قصبے العبادیہ پر قبضہ کرنے کے لیے جنگ کر رہی ہیں، جہاں تلعفر سے فرار ہونے والے داعش کے جنگجو اکھٹے ہو رہے ہیں۔ خبررساں اداروں کے مطابق ایک عراقی عہدے دار نے اس لڑائی کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا کہ یہ جنگ موصل کے قدیم حصے پر قبضے کے جنگ سے کئی گنا زیادہ برتر اور سخت تر ہے۔ قصبے کے اندر زیادہ تر گھروں اور اونچی عمارتوں پر سیکڑوں جنگجو اور نشانچی اپنے مورچے بنائے بیٹھے ہیں، جس کی وجہ سے سرکاری فورسز کے لیے ایک قدم بھی آگے بڑھنا مشکل ہو گیا ہے۔ عراقی فوج نے جون میں داعش کو شکست دے کر ان سے موصل کا کنٹرول چھینا تھا، لیکن شہر کے گلی کوچوں میں ہونے والی اس لڑائی میں انہیں 8 مہینے لگ گئے تھے۔
خبررساں ادارے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے عراقی فوج کے ایک کرنل کریم الامی کا کہنا تھا کہ العبادیہ میں داعش کے پہلے دفاعی حصار کو توڑنا ایسے ہی ہے جیسے دوزخ کے دروازے کھولنا۔ عراقی فوج نے حال ہی میں شمال مغربی عراقی شہر تلعفر کے زیادہ تر حصے کا کنٹرول حاصل کیا ہے، جو طویل عرصے سے داعش کا ایک مضبوط گڑھ چلا آ رہا تھا۔ مکمل فتح کے اعلان کے لیے شہر کے شمال مغرب میں 7 میل کے فاصلے پر واقع العبادیہ پر قبضہ کرنا ضروری ہے۔ شدید مزاحمت کے کی وجہ سے عراقی فوج کو نہ صرف اپنی انفرادی قوت بڑھانا پڑی ہے، بلکہ امریکی فضائیہ کی بمباری میں بھی اضافہ کرانا پڑا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق العبادیہ میں 2 ہزار کے لگ بھگ جنگجو موجود ہیں،
جب کہ تقریباً 50 ہزار سرکاری فوجیوں نے انہیں محاصرے میں لے رکھا ہے۔ کرنل الامی کا کہنا ہے کہ داعش کے جنگجوؤں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ انہوں نے قصبے کے تقریباً ہر گھر میں مورچے بنا رکھے ہیں۔ وہ گھروں کے اندر سے مارٹر گولے اور ٹینک شکن میزائل داغ رہے ہیں۔ چھتوں پر نشانچی بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس بھاری مشین گنیں ہیں۔ موصل کی لڑائی تو اس کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ یہ اس سے کئی گنا زیادہ خطرناک اور مشکل جنگ ہے۔ کرنل الامی کا کہنا تھا کہ قصبے کے اندر داخل ہونے کے لیے ہمیں اس وقت تک انتظار کرنا پڑے گا، جب تک فضائی حملوں اور توپ خانوں کی گولہ باری سے ان کی عسکری قوت ٹوٹ نہیں جاتی۔