میانمر سے اٹھارہ ہزار روہنگیا باشندے بے دخل

505
نیپیداؤ: میانمر کی مغربی ریاست راکھین میں صدیوں سے آباد مسلمان اکثریت روہنگیا کے خلاف فوج اور بدھ دہشت گردوں کے تازہ حملوں کی وجہ سے پریشان حال تارکین وطن بنگلا دیشی سرحد کی جانب بڑھ رہے ہیں‘ تاہم خار دار باڑ اور دریا راستے میں موجود ہونے کی وجہ سے بے گھر ہونے والوں کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے

نیپیداؤ (رپورٹ: منیب حسین) میانمر میں مسلمان اقلیت روہنگیا پر ریاستی مظالم کی نئی لہر رکنے کا نام نہیں لے رہی، جس کے باعث ہزاروں بے یارومددگار مسلمان ہمسایہ ملک بنگلادیش کی جانب ہجرت کر رہے ہیں۔ بدھ کے روز عالمی ادارہ مہاجرت ’آئی او ایم‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ میانمر کی مسلمان اکثریتی ریاست راکھین میں پُرتشدد واقعات کے بعد ایک ہفتے سے بھی کم مدت میں 18 ہزار سے زیادہ روہنگیا مسلمان نقل مکانی کرکے بنگلادیش میں داخل ہوئے ہیں۔ یہ مسلمان بنگلادیشی فوج کی نظروں سے بچ کر غیرقانونی طور پر سرحد عبور کرنے میں کامیاب ہوئے۔ آئی او ایم کا کہنا ہے کہ جمعہ سے بدھ تک 18 ہزار 445 روہنگیا مسلمانوں کا کیمپ میں اندراج کیا گیا ہے۔ آئی او ایم کے مطابق کیمپ میں آنے والوں میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔



آئی او ایم کے ترجمان پیپی صادق نے بتایا ہے کہ ابھی بھی ہزاروں افراد سرحد پر موجود ہیں، جن تک ہماری رسائی نہیں ہے۔ کیمپ میں نئے آنے والے پناہ گزینوں میں سے بعض کے پاس صرف کپڑے تھے، جب کہ بعض کے پاس کھانے پینے کے کچھ برتن بھی تھے، تاہم بڑی تعداد اپنا سب کچھ پیچھے ہی چھوڑ آئی ہے اور انہیں فوری پناہ اور خوراک کی ضرورت ہے۔ بنگلادیش کے سرحدی علاقوں میں موجود غیرملکی امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کے لیے کیمپ قائم کیے گئے ہیں، جہاں انہیں پناہ اور خوراک مہیا کی جا رہی ہے، جب کہ کیمپ میں آنے والے تقریباً ایک درجن کے قریب پناہ گزین گولیاں لگنے سے زخمی ہیں۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی ہزاروں روہنگیا مسلمان بنگلادیش کی سرحد عبور کرنے کے منتظر ہیں۔



واضح رہے کہ میانمر کی مسلمان اکثریتی ریاست راکھین میں، جو کبھی اسلامی سلطنت اراکان ہوا کرتی تھی، کئی دہائیوں سے مقامی فوج روہنگیا نسل کے مسلمانوں پر ظلم کے پہار توڑ رہی ہے۔ ریاست میں مسلمانوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی کا تازہ سلسلہ جمعہ کے روز سے جاری ہے۔ وہاں کیا ہو رہا ہے، دنیا اس سے بے خبر ہے، کیوں کہ حکومت نے متاثرہ علاقوں میں صحافیوں اور عالمی مبصرین کے داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں اسی طرح کی ایک منظم سازش کے نتیجے میں فوج اور بدھ دہشت گردوں نے روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا، جس کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان شہید اور ایک لاکھ سے زائد بے گھر ہوگئے تھے۔



اس کے بعد سے میانمر کی فوج پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا گیا تھا، تاہم مقامی حکومت نے کسی قسم کا الزام یا عالمی دباؤ مسترد کردیا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گزشتہ بدھ کے روز اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کی سربراہی میں ایک کمیشن نے نیپیداؤ حکومت سے روہنگیا مسلمانوں کو شہریت دینے کے لیے کوئی راستہ نکالنے کی درخواست کی تھی۔ کوفی عنان نے روہنگیا مسلمانوں کو ’دنیا کا سے بڑا بے وطن گروہ‘ قرار دیا ہے۔