نیویارک (انٹرنیشنل ڈیسک) سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر شمالی کوریا کے خلاف نئی پابندیوں کی منظوری دے دی ہے۔ شمالی کوریا کے خلاف پابندی کی یہ قرارداد امریکا نے تیار کی تھی۔ پیر کے روز اس قرارداد کو صفر کے مقابلے میں 15 ووٹوں سے منظور کیا گیا۔ تاہم رائے شماری سے قبل امریکا نے اپنی مجوزہ سخت پابندیوں میں تھوڑی نرمی کی اور بعض سخت تجاویز کو ختم کردیا۔ ان پابندیوں کے ذریعے شمالی کوریا کی تیل کی درآمدات محدود کردی گئی ہیں، جب کہ ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ ساتھ ہی شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کے اثاثے کو منجمد کیا گیا ہے، اور پیانگ یانگ کے فنڈ اکٹھا کرنے اور اپنے جوہری پروگرام کو فروغ دینے کی صلاحیت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ نئی پابندیاں شمالی کوریا کے چھٹے اور سب سے بڑے جوہری تجربے کے بعد عائد کی گئی ہیں۔ شمالی کوریا کے حلیفوں چین اور روس نے بھی پیانگ یانگ پر یہ پابندیاں عائد کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
واضح رہے کہ شمالی کوریا نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے ہائیڈروجن بم بنایا ہے اور وہ مسلسل امریکا کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے رہا ہے۔ شمالی کوریا پر پہلے سے ہی اقوام متحدہ نے اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، تاکہ اس کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے دباؤ ڈالا جاسکے۔ 2006ء کے بعد سے شمالی کوریا کے خلاف یہ اقوام متحدہ کی نویں قرارداد ہے، جسے متفقہ طور پر منظور کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکی خاتون مندوب نکی ہیلی کا کہنا ہے کہ امریکا کسی طور بھی شمالی کوریا کے ساتھ جنگ کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔ نکی ہیلی نے کہا کہ پیانگ یانگ نے ابھی تک اس مقام سے تجاوز نہیں کیا ہے، جہاں سے پلٹنا ممکن نہ ہو۔ قرارداد کی منظوری کے بعد امریکی مندوب نے کہا کہ اگر شمالی کوریا اپنا جوہری پروگرام روکنے پر آمادہ ہو جائے، تو وہ اپنا مستقبل بحال کر سکتا ہے۔ اگر وہ ثابت کر دے کہ وہ امن سے رہ سکتا ہے، تو پھر دنیا بھی اس کے ساتھ امن سے رہے گی۔
دوسری جانب شمالی کوریا نے ان نئی پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا جلد اب تک کا شدید ترین درد محسوس کرے گا۔ جنیوا میں تخفیف اسلحہ پر اقوام متحدہ کے تعاون سے ہونے والی کانفرنس میں پیانگ یانگ کے سفارت کار ہان تائے سونگ کا کہنا تھا کہ واشنگٹن حکومت سیاسی، معاشی اور فوجی جارحیت کے ذریعے شمالی کوریا کی اس جوہری طاقت میں کمی کی خواہاں ہے، جو تکمیل کے قریب پہنچ چکی ہے۔