پالیسیوں سے مودی کی مخالفت بڑھ رہی ہے‘ آرایس ایس

323

نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس نے بی جے پی کو خبردار کیا ہے کہ حکومت کی کارکردگی کے بارے میں عوام کا رویہ بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔ آر ایس ایس نے حال ہی میں ایک 3 روزہ اجلاس کا انعقاد کیا تھا جس میں پورے ملک سے سنگھ پریوار کی مختلف تنظیموں کے اعلیٰ عہدے داروں نے شرکت کی تھی۔ پارٹی کے صدر امِت شاہ نے عوامی سطح پر کام کرنے والی ان تنظیموں کے نمایندوں کی رپورٹوں کا بہت گہرائی سے جائزہ لیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق آر ایس ایس نے پارٹی صدر کو بتایا ہے کہ اقتصادی سست روی، ملازمتیں ختم ہونے، نئے مواقع سمٹنے، بڑے نوٹوں پر پابندی لگانے کا منفی نتیجہ نکلنے اور کسانوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی سے عام آدمی کا رویہ حکومت کے بارے میں بدل رہا ہے۔ وہ لوگ جو حکومت کے حامی ہیں اب ان پہلوؤں پر حکومت کی کارکردگی کے بارے سوالات کرنے لگے ہیں۔ نوٹوں پر پابندی کے فیصلے کو اس طرح مشتہر کیا گیا تھا جیسے اس قدم سے لاکھوں اور کروڑوں روپے کے کالے دھن حکومت کی گرفت میں آ جائیں گے اور حکومت کے بہت سے حامی یہ سمجھ رہے تھے کہ اس سے انہیں براہ راست فائدہ پہنچے گا، مگر اب اس قدم کی ناکامی کے بعد انہیں لگ رہا ہے کہ حکومت نے انہیں دھوکا دیا ہے۔



مودی حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے 3 برس ہو چکے ہیں اور ان 3 برسوں میں ملک کی معیشت مسلسل نیچے گئی ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں معیشت 3 برس میں سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئی۔ آنے والی سہ ماہی میں اس شرح کے بھی نیچے جانے کے واضح اشارے مل رہے ہیں۔ ملک کی برآمدات گھٹتی جا رہی ہیں۔ صنعتی پیداوار بڑھ نہیں رہی۔ حکومت نئی ملازمتیں نہیں پیدا کر سکی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سمیت کئی شعبے مشکلات میں ہیں۔ زرعی شعبہ بحران سے گزر رہا ہے۔ حکومت نے بینکوں میں جمع کی جانے والی رقوم پر شرح سود میں زبردست کمی کر دی ہے، لیکن بینک سے لیے جانے والے قرضوں کی شرح سود توقع کے برعکس گھٹ نہیں سکی۔ لاکھوں مکان تیار پڑے ہیں اور ان کا کوئی خریدار نہیں ہے۔ ملک کی کئی بڑی تعمیراتی کمپنیاں دیوالیہ ہوچکی ہیں۔ مودی حکومت نے ان گزرے ہوئے 3 برسوں میں نعرے تو بہت دیے، لیکن عملی طور پر کسی بڑی تبدیلی کے لیے ابھی تک ایسا کوئی کام نہیں کیا جسے عام آدمی محسوس کر پاتا۔ مودی اور ان کی جماعت نے گزرے ہوئے برسوں میں اپنی حریف جماعتوں کو کرپٹ، نا اہل اور ملک دشمن تک قرار دیا۔ انہوں نے خود کو عوام کے سامنے ایک ایسے مسیحا کے طورپر پیش کیا جو ملک کے تمام مسائل کو یک لخت حل کر دے گا۔ انہوں نے عوام کی توقعات اتنی بڑھا دیں کہ وہ ان سے سیاسی معجزے کی امیدیں کرنے لگی۔ آیندہ پارلمیانی انتخابات میں اب محض 2 برس باقی ہیں۔ مودی اور ان کے ساتھی امت شاہ آیندہ انتخابات کی تیاریوں میں لگ چکے ہیں۔ بھارت کی سیاست میں ہندوتوا اس وقت اپنے عروج پر ہے اور اس کی وجہ ہے کہ گزرے ہوئے 3 برسوں میں حکومت نے آر ایس ایس کے ہندوتوا کے نظریے پر عمل کیا۔ یہ نظریہ حکومت کا رہنما اصول بنتا جارہا تھا۔ اسے ملک کے کئی حلقوں سے زبردست حمایت بھی مل رہی تھی، لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ نفرت اور مذہبی تنگ نظری کی سیاست سے ملکوں کی تقدیریں تباہ ہو سکتی ہیں، سنور نہیں سکتیں۔عوام کا بھرم رفتہ رفتہ ٹوٹتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔



مودی سیاست کے تجربہ کار کھلاڑی ہیں۔ انہوں نے اپنے پیروں کے نیچے کی زمین کی حرکت محسوس کر لی ہے۔ حال میں ان کے رویے میں غیر معولی تبدیلیاں نظر آئی ہیں۔ انہوں نے پچھلے دنوں برما کے دورے میں رنگون میں مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے مزار پر پھول چڑھائے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب وہ مغل بادشاہوں کو کولٹیرے اور ظالم بتاتے تھے۔ جاپان کے وزیر اعظم جب احمدآباد آئے تو وہ انہیں 16ویں صدی کی مسجد بھی دکھانے لے گئے۔ کشمیر میں جہاں ہر مسئلے کے حل کے لیے صرف طاقت کا استعمال ہو رہا تھا، وہاں اب اچانک انسانیت اور مذاکرات کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ کابینہ میں نئے وزرا شامل کیے گئے ہیں اور کئی وزرا کے قلم دانوں کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ مدھیہ پردیش کے بعد اب کسانوں نے بی جے پی کے اقتدار والی دوسری ریاست راجستھان میں بھی مظاہرہ شروع کر دیا ہے۔ آیندہ چند دنوں میں آر ایس ایس سے وابستہ مزدور یونینیں اپنی ہی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والی ہیں۔ صنعتی گھرانوں کی ملکیت والا بھارتی میڈیا اب بھی اپوزیشن مخالف اور مودی کا حامی ہے، لیکن طویل عرصے تک یہ روش وزیر اعظم کی اپنی مقبولیت کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ مودی کی مقبولیت اب بھی کافی حد تک برقرار ہے، لیکن صرف مودی کی مقبولیت آیندہ پارلیمانی انتخاب جیتنے کی ضامن نہیں ہو سکتی۔ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی انتہائی مقبولیت کے باوجود بی جے پی 2004ء میں شکست فاش سے دو چار ہوئی تھی۔