جنیوا (انٹرنیشنل ڈیسک) اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ 2016ء میں عالمی سطح پر ساڑھے 81 کروڑ افراد ایسے تھے جنہیں بھوک کا سامنا تھا۔ عالمی ادارے نے خبردار کیا ہے کہ ایسے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بھوک یا خوراک کی کمی کے شکار افراد کی تعداد 2015ء میں 77 کروڑ 70لاکھ تھی، جو اضافے کے ساتھ پچھلے سال یعنی 2016ء میں ساڑھے 81 کروڑ رہی۔ یہ بات ’دا اسٹیٹ آف فوڈ انسیکورٹی اینڈ نیوٹریشن ان دا ورلڈ‘ نامی اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔ عالمی ادارے کی ایجنسیوں نے اس پیشرفت کی ذمے داری مسلح تنازعات، موسمیاتی تبدیلیوں اور اقتصادی ترقی کی رفتار میں کمی پر عائد کی ہے۔ رپورٹ میں جنوبی سوڈان، نائیجیریا، صومالیہ اور یمن کی صورتحال پر بالخصوص تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، یونیسف اور فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن، انٹرنیشنل فنڈ فار ایگریکلچر ڈیولپمنٹ اور دا فوڈ پروگرام کے اشتراک سے ترتیب دیا گیا ہے۔
ان اداروں کے مطابق تاحال یہ واضح نہیں کہ یہ اضافہ عارضی ہے یا کسی طویل المدتی رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ تاہم 2030ء تک دنیا بھر سے خوراک کی عدم دستیابی ختم کرنے کے سلسلے میں بین الاقوامی برادری کے لیے ایک چیلنج ضرور ہے۔ ’فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن‘ کے ڈائریکٹر جنرل یوڑے گرازیانو کا کہنا ہے کہ میانمر اور بنگلادیش میں روہنگیا مسلمانوں کو درپیش صورتحال کے باوجود وہ پر اعتماد ہیں کہ چند مسلح تنازعات کے اثرات آیندہ برس تک ختم ہو جائیں گے۔ اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو خوراک کی عدم دستیابی کے شکار 52کروڑ سے زائد افراد براعظم ایشیا میں ہیں۔ براعظم افریقا کی کل 20 فیصد آبادی یا 24کروڑ 30لاکھ افراد کو بھی یہی صورت حال لاحق ہے۔