از: مولانا سید طفیل احمد
آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس، علیگڑھ
بنو اسرائیل کی سرگزشت
فلسطین ایک چھوٹا سا ملک ہے، جو صرف 150 میل لمبا اور 50 میل چوڑا ہے، اس لیے اس کا رقبہ ہندوستان کی ایک کمشنری سے بھی کم ہوتا ہے، مگر زمانہ قدیم میں اس خطے کی اہمیت اس وجہ سے تھی کہ یہ مصر، شام اور بابل کی عظیم الشان حکومتوں کے درمیان واقع تھا اور ان ممالک کی گزر گاہ تھا۔ اس لیے وہاں کوئی مستقل اور پائیدار حکومت قائم نہ ہوسکتی تھی اور جب وہ قائم ہوئی تو بڑے پائے اور مرتبہ کی ہوئی۔
فلسطین کی دوسری اہمیت اس باعث تھی کہ وہاں یکے بعد دیگرے کثیر تعداد میں پیغمبر مبعوث ہوئے، جن کی وجہ سے یہ بڑا مذہبی مرکز بن گیا۔ یہود کی روایات کی رو سے فلسطین ابتدا میں حضرت نوح علیہ السلام کے پوتے اور حام کے بیٹے ’کنعان‘ اور اس کی اولاد کا مستقر تھا۔ حام کے بھائی سام کی اولاد میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ہوئے، جو عراق کے شہر ’قدان آرام‘ میں آزر کے گھر میں پیدا ہوئے، مگر تورات کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام شہر عور کے باشندے اور تارح کے بیٹے تھے۔ ولدیت کے اس اختلاف کی توجیہ تو مولوی حفظ الرحمن سیوہاروی نے اپنی کتاب قصص القرآن میں یہ بتائی ہے کہ ادارکالدی زبان میں بڑے پجاری کو کہتے ہیں اور عربی میں یہی آزر کہلایا۔ تارح بت تراش اور سب سے بڑا پجاری تھا، اس لیے آزرہی کے نام سے مشہور ہوگیا، حالاں کہ یہ نام نہ تھا، بلکہ لقب تھا اور چوں کہ لقب نے نام کی جگہ لے لی تو قرآن عزیز نے بھی اسی نام سے پکارا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے عقیدئہ توحید کی تبلیغ سب سے پہلے اپنے گھر میں اور اپنے باپ سے شروع کی۔ پھر قوم کی طرف توجہ کی اور اس کے بعد اپنے ملک کے بادشاہ نمرود سے مناظرے کی نوبت آئی۔ اس میں لاجواب ہو کر نمرود نے آپ کو آگ کے الائو میں پھنکوادیا، جس سے خداوند تعالیٰ نے اپنی رحمت سے انہیں بچالیا۔ اس کے بعد آپ نے ترک وطن کیا اور مختلف مقامات میں تبلیغ کرتے ہوئے کنعان پہنچے، جو اس زمانہ میں فلسطین کا نام تھا اور وہاں سکونت اختیار کی۔ خدا کی طرف سے وعدہ تھا کہ اس ملک کی حکومت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کو ملے گی۔
وہاں عرصہ تک قیام کرکے حضرت ابراہیم علیہ السلام آگے بڑھے اور تبلیغ کرتے ہوئے مصر پہنچے۔ وہاں فرعون وقت نے اپنی صاحبزادی ’ہاجر‘ آپ کے عقد میں دے دی۔ سارہ آپ کی پہلی بیوی تھیں، مگر ان سے اولاد نہ ہوئی تھی۔ 86 سال کی عمر میں ہاجر سے ایک لڑکا ہوا جس کا نام اسماعیل رکھا گیا۔ اس کے 13 سال بعد 99 برس کی عمر میں سارہ سے بھی ایک لڑکا ہوا جس کا نام اسحاق رکھا گیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام ہاجر کو اپنے بڑے بیٹے اسماعیل کے ساتھ عرب لے گئے۔ وہاں آپ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اور اسماعیل علیہ السلام کو خدا کے نام کی اولین عبادت گاہ کی خدمت کے لیے چھوڑ دیا۔ وہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے پہلے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو خدا کی بارگاہ میں قربانی کے لیے پیش کیا، مگر خدا نے اپنی رحمت سے اس کی جگہ مینڈھے کی قربانی قبول فرمائی، جس سے انسانی قربانی کی جگہ جانور کی قربانی جاری ہوگئی۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کے 12 بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی، جن کی اولاد عرب میں پھلی پھولی اور اس نے تجارت میں ترقی کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام عرب سے واپس آکر اپنے بیٹے اسحاق کے ساتھ فلسطین میں رہے اور ان کے بعد ان کے پوتے حضرت یعقوب علیہ السلام بھی وہیں رہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل تھا، اس لیے ان کی اولاد بنو اسرائیل کہلائی۔ آگے چل کر فلسطین میں سخت قحط پڑا، جس سے تنگ آکر بنو اسرائیل مصر چلے گئے اور وہیں کے ہوگئے۔
وہاں قیام کے زمانہ میں حضرت یوسف علیہ السلام جو حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے تھے، مصر کے وزیر ہو کر ’عزیز مصر‘ کہلائے اور ان کی وجہ سے بنو اسرائیل کو وہاں بڑا عروج ملا۔ اس زمانے میں مصر میں سامیوں کے خاندان ہائیکسوس کی حکومت تھی۔ جب ان کی حکومت ختم ہو کر پھر قدیم مصریوں کی حکومت قائم ہوئی، تو فرعون وقت نے بنو اسرائیل پر بڑے بڑے مظالم ڈھائے۔ تب خداوند تعالیٰ نے ان میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پیدا کیا، جو 6 لاکھ بنو اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے 491 ق۔م۔ میں نکال لائے اور 40 سال تک مع اپنی اُمت کے دشت فاراں میں پھرتے رہے، مگر انہیں ارضِ موعود یعنی فلسطین میں نہ پہنچا سکے۔ یہاں تک کہ آپ کا انتقال ہوگیا۔
(جاری ہے)