غزہ (انٹرنیشنل ڈیسک) اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے محصور غزہ کی پٹی میں اپنی قائم کردہ عبوری انتظامی کمیٹی ختم کرتے ہوئے قومی حکومت سے تمام انتظامات فوری طور پر اپنے ہاتھ میں لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ حماس کی جانب سے اتوار کے روز جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں عبوری انتظامات کے لیے قائم کی گئی انتظامی کمیٹی تحلیل کردی گئی ہے۔ حماس نے وزیراعظم رامی الحمد اللہ پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر غزہ کی پٹی کے امور کو اپنے ہاتھ میں لے۔ حماس نے مصر کی دعوت پر تحریک فتح کے ساتھ مذاکرات کرنے، عام انتخابات کی تیاری پر موافقت اور 2011ء میں قاہرہ کی زیرنگرانی طے پائے مفاہمتی معاہدے کے میکنزم کے تحت قومی حکومت کی تشکیل اور قومی مفاہمت کا عمل آگے بڑھانے سے اتفاق کیا گیا تھا۔ حماس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں قومی حکومت کو انتظامات سپرد کرنے کا فیصلہ مصر کوششوں سے عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ اقدام مصر کی طرف سے فلسطینیوں کے درمیان مفاہمتی کوششوں کا حصہ ہے۔ حماس نے مصر کی مفاہمتی مساعی میں تعاون کرتے ہوئے غزہ کی پٹی میں اپنی زیرنگرانی قائم کردہ انتظامی کمیٹی تحلیل کردی ہے۔ یہ پیش رفت مصری دارالحکومت میں جاری ایک مذاکراتی عمل کا نتیجہ قرار دی گئی ہے۔
حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی قیادت میں ایک وفد گزشتہ ایک ہفتے سے قاہرہ میں مقیم ہے اور مصری حکام کے ساتھ فلسطینی علاقے کے سیاسی تنازع کے ساتھ ساتھ انتظام و انصرام کے معاملے پر بات چیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ فلسطینی تنظیم الفتح کا ایک وفد 3 روز قبل اس مذاکراتی عمل میں شریک ہوا ہے۔ الفتح مغربی کنارے پر کنٹرول رکھتی ہے اور اسی کو عالمی سطح پر فلسطینیوں کی نمایندہ تنظیم قرار دیا جاتا ہے۔ صدر محمود عباس کا تعلق بھی اسی فلسطینی تنظیم سے ہے۔ فلسطینی تنظیم حماس نے غزہ پٹی کا انتظام 2007ء سے پُرتشدد انداز میں زبردستی سنبھال کر محمود عباس کی انتظامیہ کو فارغ کر دیا تھا۔ اس انتظامی تبدیلی کے بعد اسرائیل نے غزہ کی ناکا بندی کر رکھی ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کا خیال ہے کہ غزہ انسانی بحران کا شکار ہے اور عام لوگوں کو ضروریاتِ زندگی کے حصول میں انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔ واضح رہے کہ تحریک الفتح اور حماس کی قیادت جلد ہی مصر کی میزبانی میں اہم اجلاس منعقد کرے گی۔ اس اجلاس کے بعد مصری انٹیلی جنس چیف کی موجودگی میں دیگر فلسطینی جماعتوں پر مشتمل بڑا اجلاس بھی منعقد کیا جائے گا۔ تحریک الفتح کی مرکزی کمیٹی کے رکن اور اعلیٰ مذاکرات کار عزام الاحمد نے مصر میں اخباری نمایندوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ حماس اور فتح کی قیادت کی دو طرفہ بات چیت کے لیے اجلاس کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اس اجلاس کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا، تاہم جلد ہی یہ مصری انٹیلی جنس چیف خالد فوزی کی موجوگی میں اہم اجلاس ہوگا۔ اس اجلاس کے بعد فلسطین کی دیگر نمایندہ تنظیموں کی قیادت بھی قاہرہ مدعو کی جائے گئی۔
عزام الاحمد کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی میں حماس کی قائم کردہ انتظامی کمیٹی کے تحلیل کیے جانے کے بعد ملک میں ایک بار پھر حماس اور فتح سمیت تمام دھڑوں میں مفاہمت کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ دونوں بڑی جماعتیں فلسطین کے انتظامی اور سیاسی امور قومی حکومت کے حوالے کرنے پر متفق ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی تنظیمیں 2011ء میں مصر میں طے پائے مفاہمتی معاہدے کی شرائط کے تحت انتظامی مفاہمت پر آمادہ ہیں۔قومی مفاہمت کے لیے مصر کے کردار پر بات کرتے ہوئے عزام الاحمد نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ مصری حکومت فلسطینی تنظیموں کے کوآپس میں ملانے کے لیے غیر جانب دارانہ کردار ادا کرتا رہے گا۔ ادھر حماس کی جانب سے غزہ کی عبوری انتظامی کمیٹی تحلیل کیے جانے پرعوامی اور سماجی حلقوں کی طرف سے غیرمعمولی تحسین کی گئی ہے۔ غزہ میں انتظامی کمیٹی تحلیل کیے جانے کے فوری بعد مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر ’شکریہ حماس‘ ہیش ٹیگ ٹاپ پر ٹرینڈ کرنے لگا۔ سوشل میڈیا پر عوام الناس نے حماس کے اقدام کو قومی مصالحت کے لیے غیرمعمولی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے تمام فلسطینی تنظیموں بالخصوص تحریک فتح پر زور دیا ہے کہ وہ حماس کی مفاہمتی کوششوں کا مثبت جواب دے۔ دوسری جانب ترکی کی حکومت نے تمام فلسطینی تنظیموں پر زور دیا ہے کہ وہ قومی مفاہمت کے موجودہ موقع کو ضائع ہونے سے بچائیں۔
ترکی کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ترکی فلسطینی تنظیموں کے درمیان مفاہمت کے لیے حماس کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ حماس کی جانب سے غزہ میں انتظامی کمیٹی تحلیل کرنا فلسطینیوں میں مفاہمت کی طرف اہم پیش رفت ہے۔ ترکی تمام فلسطینی اسٹیک ہولڈرز پر زور دیتا ہے کہ وہ مفاہمت اور مصالحت کے موجودہ موقع سے فائدہ اٹھائیں اور باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھائی چارے کی عملی مثال قائم کریں۔ترکی نے حماس کی انتظامی کمیٹی کو تحلیل کیے جانے کو قومی مفاہمت کے حوالے سے اہم ترین، خطے میں استحکام کا ذریعہ اور دو ریاستی حل کی طرف اہم پیش رفت قرار دیا۔ترک وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ انقرہ حکومت فلسطینی تنظیموں کے درمیان مفاہمت کے لیے کوشاں رہی ہے۔ کسی بھی چینل سے فلسطینی تنظیموں میں طے پائے مفاہمتی معاہدے کو ترکی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ادھر اقوام متحدہ کے مشرق وسطیٰ کے لیے امن مندوب نیکولائے ملادینوف نے بھی حماس کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ میں انتظامی کمیٹی تحلیل کیے جانے کے بعد فلسطینیوں میں مفاہمت کا ری موقع پیدا ہوا ہے۔ تمام فلسطینی دھڑے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپس میں متحد ہوجائیں۔مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اقوام متحدہ کے امن مندوب نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ حماس کی طرف سے انتظامی کمیٹی تحلیل کرتے ہوئے قومی حکومت کو غزہ کے انتظامات سنبھالنے کی دعوت دینا خوش آیند اور فلسطینیوں کے لیے مفاہمت کا بہترین موقع ہے۔