امریکی اسلامی کانفرنس ختم‘ بین المذاہب مکالمے پر زور

311
نیویارک: امریکا اسلامی دنیا کانفرنس میں کئی ممالک سے مختلف مذاہب کے رہنما شریک ہیں

نیویارک (انٹرنیشنل ڈیسک) نیویارک میں امریکا اور اسلامی دنیا کے درمیان ثقافتی ابلاغ کے موضوع پر 2 روزہ کانفرنس اتوار کے روز ختم ہو گئی۔ رابطہ عالم اسلامی کے زیر اہتمام منعقدہ اس کانفرنس میں دنیا کے 56 ممالک سے تعلق رکھنے والے 450 سے زیادہ دانشور، سائنسدان اور ماہرین تعلیم شریک ہوئے۔ رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسٰی نے کانفرنس کے آخری روز اپنی تقریر میں کہا کہ امریکا اور اسلامی دنیا کے درمیان برسوں سے جاری امتیازی تعلقات کے باعث تہذیبوں کے درمیان کشمکش پیدا ہو چکی تھی۔ یہ نفرت اور نسل پرستی پر مبنی تھی اور اس سے خیالی رکاوٹیں کھڑی ہوگئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے نزدیک اہم بات پر امن بقائے باہمی کی ضرورت کو سمجھنا ہے اور اس تفہیم کی روشنی میں باہمی تعاون کو فروغ دینا ہے جس سے نہ صرف ہمارے باہمی مفادات کا تحفظ ہو بلکہ اس سے تمام انسانیت کو فائدہ پہنچے۔ سماجی امن اور دانشورانہ سلامتی کو تحفظ ملے اور برائی کو شکست سے دوچار کیا جائے۔ ڈاکٹر العیسٰی کا کہنا تھا کہ ضمیر اور سوچ میں عدم توازن کی وجہ سے بڑے انسانی المیوں نے جنم لیا ہے۔



رابطہ عالم اسلامی عالمی انسانی مشن پر عمل پیرا ہے اور وہ پوری انسانیت کی خدمت اور باہمی مفاد کے لیے ابلاغ، مفاہمت اور باہمی ربط وتعاون پر زور دیتی ہے۔ عالمی کونسل برائے مذہبی قائدین کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر باوا جین نے اپنی تقریر میں کہا کہ اب دوسروں کو قبول کرنے اور ان کے احترام کے مرحلے سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ جامعہ شاہ عبدالعزیز جدہ سے تعلق رکھنے والے اسلامی تعلیمات کے پروفیسر عبداللہ بن بیاح نے اپنی تقریر میں کہا کہ سعودی عرب اسلامی دنیا کی قیادت کے لیے درکارتمام انسانی اور مذہبی اقدار کا حامل ہے۔ کانفرنس میں امام کعبہ اور ادارہ امور الحرمین الشریفین کے صدر شیخ عبدالرحمن سدیس بھی شریک تھے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں بنی نوع انسان کے درمیان انصاف اور مساوات کی تعلیمات کو فروغ دینے کے لیے ابلاغ کی ثقافت کو اجاگر کرنے کی ضرورت پر زوردیا۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی ) کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر یوسف بن احمد العثیمین نے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ہمیں امریکا اور اسلامی دنیا کے درمیان مکالمے کے لیے ایک جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لیے مشترکہ عوامی مقاصد پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے۔